محمد ہلال کا تعلق سوات کی تحصیل کبل سے ہے جو 35 سال سے دریائے سوات میں مچھلی پکڑنے کا کام کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ دریائے سوات میں جب بھی کوئی حادثے کا شکار ہوکر دریا برد ہو جائے تو لاش ڈھونڈنے کے لیے محمد ہلال ہی کام آتے ہیں۔
وہ تین دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں اور ان کے مطابق وہ تین سو سے زیادہ لاشیں دریا سے نکال کر ان کی لواحقین کے حوالے کر چکے ہیں۔
محمد ہلال نے انڈپینڈنٹ اردو بتایا کہ ’یہ دریا میرا دوسرا گھر ہے۔ اس سے قبل یہ کام میرے والد کرتے تھے اب وہ بیمار ہیں۔ الحمدللہ ہم اب اس کام کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنے بیٹے کو بھی یہ کام سکھایا ہے۔ میرے چھ بھائی ہیں وہ بھی یہ کام کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’دریائے سوات میں جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو لوگ ہمیں کال کرتے اور ہم فی سبیل اللہ ان کی مدد کو نکل پڑتے ہیں۔‘
سوات میں گذشتہ آنے والے سیلاب کے دوران محمد ہلال نے پانچ افراد کی لاشیں دریائے سوات سے نکالی تھیں اس کے علاوہ وہ کئی لوگوں کی زندگیاں بھی بچا چکے ہیں۔
ہلال نے کہا کہ ’بدقسمتی یہ ہے کہ انسان تو ادھر ڈوب ہی جاتے ہیں لیکن سوات ایسا دریا ہے جہاں سے لاش ملنا بھی ایک بہت بڑی خوش قسمتی سمجھی جاتی ہے۔‘
محمد ہلال کے مطابق جب سوات میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری تھا تو دہشت گرد لوگوں کو مار کر دریا میں پھینک دیتے تھے۔ اس آپریشن کے دوران محمد ہلال درجنوں لاشیں دریائے سوات سے نکال چکے ہیں جو اس وقت ان کے جیل جانے کا سبب بھی بنا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہلال نے بتا یا: ’اس وقت آپریشن کے دوران جو لاشیں دریا سے ملتی تھیں ان کی شناخت نہیں ہو پاتی تھی اور ہم ان کو ایسے ہی دفنا دیتے تھے اس وجہ سے میں نے تقریبا سات دن جیل میں گزارے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب کوئی حادثے کا شکار ہو کر دریا میں گر جاتا ہے تو اس کی لاش ایک دو روز بعد صحیح حالت میں مل جاتی ہے مگر چار پانچ دن بعد لاش خراب ہو چکی ہوتی ہے۔ اسا ہی ایک واقعہ محمد ادریس کے ساتھ پیش آیا تھا جن کی دریائے سوات میں گر کر موت ہو گئی تھی لیکن ان کی لاش سات دن کی بڑی جد و جہد کے بعد ملی تھی مگر وہ مکمل مسخ ہو چکی تھی۔‘
ادریس کے چچا محمد رحمان نے ہمیں بتایا کہ ’بہت غم دکھ کا عالم تھا۔ وہ دن ادریس کے خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھے۔‘
ادریس کے قریبی دوست محمد سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں خصوصا محمد ہلال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’جب انہوں نے سات دن کی کڑی محنت کے بعد ادریس کی لاش دریا سے نکالی تو ایک طرف تو ہم ان کی موت پر غم سے نڈھال تھے لیکن دوسری جانب ہم ان کی لاش ملنے پر خوش بھی تھے۔ ہم سب ہلال اور ان کی ساری ٹیم کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے بڑی محنت کے بعد ادریس کی لاش دریائے سوات سے نکالی تھی۔‘
محمد ہلال کے مطابق یہ کام بہت زیادہ خطرناک بھی ہے لیکن ان کا ماننا ہے کہ جب تک ان کی سینے میں دل ہے وہ اپنا کام جاری رکھیں گے۔