ایرانی حکومت نے بین الاقوامی ادارے انٹرپول میں ’ریڈ نوٹس‘ جمع کروا دیا ہے جس میں تین جنوری 2020 کو ایرانی فوج کے ذیلی ادارے پاسداران انقلاب کور کے قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور 47 دیگر امریکی عہدے داروں کی گرفتاری کی درخواست کی گئی ہے۔
قطری میڈیا گروپ ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین اسماعیلی نے اپنے بیان میں کہا: ’اسلامی جمہوریہ ایران اس جرم کا حکم دینے اور اس پر عمل کرنے والوں کے تعاقب اور انہیں سزا دینے پر بہت سنجیدگی سے عمل پیرا ہے۔‘
انٹرپول نے اس قبل بھی تہران کے پراسیکیوٹر علی القاسم مہر کی جانب سے دائر کی اس درخواست کی منظوری نہیں دی تھی جس میں انہوں نے ’قتل اور دہشت گردی کے الزامات‘ کے تحت صدر ٹرمپ اور پینٹاگون اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے دیگر عہدے داروں کی گرفتاری کے لیے انٹرنیشنل وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی تھی۔
جون میں ایران کی جانب سے دائر کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے انٹرپول نے کہا تھا کہ عالمی تنظیم کا اپنا آئین اسے کسی بھی طرح سے ’کسی سیاسی، فوجی، مذہبی یا نسلی کردار کے خلاف مداخلت یا سرگرمیوں‘ جیسے اقدامات کی اجازت نہیں دیتا۔
ایران کو امید ہے کہ 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے صدر ٹرمپ کو جنرل سلیمانی کے قتل کے نتائج کا سامنا کرنے پر مجبور کرنا آسان ہوجائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایران کے چیف جسٹس ابراہیم رئیسئی نے کہا: ’خوش قسمتی سے صدر ٹرمپ کی صدارت ختم ہو گئی ہے لیکن اگر ان کی مدت صدارت ختم نہ بھی ہوتی تو بھی یہ کہنا ناقابل قبول ہوتا کہ کوئی بھی شخص اپنے انتظامی عہدے کی وجہ سے قانون کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کا مدت اقتدار 20 جنوری کو ختم ہو رہا ہے۔
ایران میں قانون سازی اور انتخابات کی نگرانی کرنے والے ادارے ’گارڈین کونسل‘ کے ترجمان علی قدخدائی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف ان کے دورہ اقتدار کے دوران قانونی کارروائی کرنا مشکل ہے تاہم ’کچھ بین الاقوامی ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے دور صدارت کے خاتمے کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائی ممکن ہوسکتی ہے۔‘
بغداد میں امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے جنرل سلیمانی کی پہلی برسی کے موقع پر ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔
’الجزیرہ‘ کی رپوٹ کے مطابق گذشتہ ماہ کے دوران متعدد مواقع پر امریکی بمبار طیاروں بی 52 نے خلیج پر پرواز کی اور پیر کو واشنگٹن نے ایران کے بڑھتے ہوئے خطرے کے باعث اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے کو خطے میں تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سے قبل ’دی انڈپینڈنٹ‘ نے رپورٹ کیا تھا کہ ایران نے یورینیئم کی 20 فیصد تک افزردگی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ یہ ایران کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔ اس عالمی معاہدے نے ایران کے جوہری ٹیکنالوجی کے پروگرام کو محدود کردیا تھا۔
ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے ’تسنیم‘ کے مطابق ایران کے سخت گیر پاسداران انقلاب نے پیر کو خلیج عرب میں جنوبی کوریا کے تیل بردار بحری جہاز کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے، ایران کا دعویٰ ہے کہ اس آئل ٹینکر نے بارہا ’ماحولیاتی پروٹوکول‘ کی خلاف ورزی کی ہے۔
بعد میں امریکہ نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ خلیج سے پکڑے گئے جنوبی کوریا کے ٹینکر کو چھوڑ دے۔
پیر کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’(ایرانی) حکومت پابندیوں کے دباؤ کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر خلیج عرب میں بحری حقوق اور نیویگیشنل آزادیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ہم فوری طور پر کوریا کے ٹینکر کو چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
© The Independent