ایک امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے ایران کی جوہری تنصیب پر حملے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا لیکن پھر انہوں نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
امریکی عہدیدار کے مطابق صدر ٹرمپ نے گذشتہ جمعرات کو اپنے قومی سلامتی کے مشیروں کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں اس حوالے سے مشورہ مانگا تھا۔
اس ملاقات میں امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس، ٹرمپ کے نئے وزیر دفاع کرسٹوفر ملر اور چئیرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملر شامل تھے۔
عہدیدار نے اخبار نیو یارک ٹائمز سے اس ملاقات کی تفصیلات کی تصدیق کی جس میں شریک مشیروں نے صدر کو ایک بڑی جنگ کے خدشے کے پیش نظر ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا۔
'صدر ٹرمپ نے اس پر مختلف آپشنز طلب کیے اور مشیروں نے ان کو ممکنہ منظر ناموں سے آگاہ کیا جس کے بعد انہوں نے اس پر آگے نہ بڑھنے کا فیصلہ کیا۔‘
وائٹ ہاؤس نے اس خبر پر موقف دینے سے انکار کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے چار سال کے دوران ایران کے خلاف جارحانہ پالیسیز پر عمل کیا اور وہ اپنے پیش رو براک اوباما کے ایران سے طے کردہ معاہدے سے بھی علیحدہ ہو گئے تھے جس کے بعد انہوں نے ایران پر سخت پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔
جنوری میں عراق کے شہر بغداد کے ہوائی اڈے پر امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کا حکم بھی صدر ٹرمپ نے دیا تھا لیکن اپنے چار سالہ دور اقتدار میں وہ بڑے پیمانے پر جنگ چھیڑنے سے باز ہی رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ تین نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج کو بھی قانونی طور پر چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کی جانب سے 20 جنوری کو نو منتخب صدر جو بائیڈن کو اقتدار کی منتقلی کی جانی ہے۔