فیس بک اور انسٹاگرام نے صدر ٹرمپ کے اکاؤنٹس کو کم از کم 20 جنوری تک معطل کر دیا ہے جبکہ ٹوئچ اور سنیپ چیٹ نے بھی ایسا ہی کیا۔ سونے پر سہاگہ کہ ٹوئٹر نے 12 سالہ پرانا اکاؤنٹ بند کر دیا جس سے ٹرمپ کا اپنے تقریباً نو کروڑ فالورز سے رابطہ منقطع ہوگیا۔
کنزویٹوز اسے غلط اقدام قرار دے رہے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے جعمے کو ٹویٹ کیا: ’آزادی اظہار خطرے میں ہے۔ سینسرشپ ماضی سے زیادہ ہو رہی ہے۔ http://DONJR.COM پر رجسٹر ہوں تاکہ رابطے میں رہ سکیں۔‘
کیا ٹوئٹر اور فیس بک قانونی طور پر کارروائی کرسکتے ہیں؟
مختصر جواب ہاں ہے۔ جیسا کہ امریکی کانگرس کی تھنک ٹینک کانگرس ریسرچ سروس نے وفاقی قانون سازوں اور ان کے عملے کے لیے رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ کسی ویب سائٹ کی جانب سے مواد ہٹائے جانے کے فیصلے کے خلاف پٹیشن اکثر ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں آزادی اظہار کے تحفظ عمومی طور پر اس وقت لاگو ہوتی ہے جب کسی شخص کو حکومتی کارروائی سے نقصان پہنچتا ہے۔
کرس کریبس سے جب پوچھا گیا کہ آیا سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے سینسرشپ آزادی کے تحفظ کی خلاف ورزی تو نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’پہلی ترمیم نجی کمپنیوں پر لاگو نہیں ہوتی۔ یہ اس طرح نہیں ہوتا ہے۔‘
کریبس ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ میں انتخابات کے دوران سائبر سکیورٹی پر نظر رکھے ہوئے تھے، جنہیں ٹرمپ نے الیکشن میں فراڈ کی دعوے کی نفی کرنے کے بعد نکال دیا تھا۔ امریکی نیوز چینل سی بی ایس کے پروگرام ’فیس کے نیشن‘ میں انہوں نے وضاحت کی کہ کمپیناں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے لیے اپنا معیار اور پالیسی نافذ کرتی ہیں۔ یہی ٹوئٹر پر گذشتہ جعمہ کو ہوا۔
ٹوئٹر نے اپنے فیصلے کا جواز کیا پیش کیا؟
کمپنی نے بدھ کو کیپٹیل میں ہونے والے فساد کے تناظر میں ٹرمپ کے اکاؤنٹ کا جائزہ لینے کے بعد کہا تھا کہ اسے ان کی جمعے کی دو ٹویٹس پر تشویش تھی جس پر ٹوئٹر نے کہا کہ اسے تشدد پر اکسایا جا سکتا تھا۔ وہ ٹویٹس تھیں:
۔ ’75,000,000 عظیم امریکی محب وطن جنہوں نے مجھے ووٹ دیا، امریکہ سب سے پہلے اور امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے، مستقبل میں ایک بڑی آواز ہوگی۔ ان کی کسی بھی شکل میں بےعزتی یا بدسلوکی نہیں کی جائے گی!!!‘
۔ ’ان سب کو جنہوں نے پوچھا ہے، میں 20 جنوری کی افتتاحی تقریب میں نہیں جاؤں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمپنی نے کہا کہ پہلی ٹویٹ کو کچھ حامیوں نے مزید تصدیق کے طور پر وصول کیا تھا کہ تین نومبر کے انتخابات جائز نہیں تھے — لیکن حقیقت میں بڑے پیمانے پر ووٹر فراڈ کا تصور ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ اپنے بعض حامیوں کے لیے ’امریکی محب وطن‘ کے الفاظ کی کیپٹیل میں پرتشدد کارروائیوں کے مرتکب افراد کے لیے حمایت کے طور پر تشریح کی جا سکتی تھی۔
کمپنی نے کہا کہ دوسری ٹویٹ پرتشدد کارروائیوں پر غور کرنے والوں کے لیے 20 جنوری کی افتتاحی تقریب میں تشدد کا سوچنے والوں کی حوصلہ افزائی کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ 20 ایک ’محفوظ‘ ہدف ہو گا چونکہ وہ شرکت نہیں کر رہے۔
ٹوئٹر نے لکھا کہ ’ہمارا مصمم خیال یہ ہے کہ مندرجہ بالا دو ٹویٹس سے چھ جنوری کو تشدد دوبارہ دہرانے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور اس سے متعدد اشارے موجود ہیں کہ انہیں ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔