عوام برسوں تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کے ریکارڈز کے بارے میں نہیں جان پائیں گے لیکن ان میں اس حوالے سے تشویش ضرور پائی پائی جاتی ہے کہ امریکہ کے ایک انتہائی پریشان کن دورِ صدارت کے دوران تاریخ میں ایک چھید ضرور پڑا ہو گا۔
ٹرمپ اس قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے، جس کے مطابق صدارتی ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپنی مدت صدارت کے دوران انہیں دستاویزات کو حوالے کرنے سے پہلے ان کو پھاڑ دینے کی عادت تھی، جس کے بعد وائٹ ہاؤس کا عملہ گھنٹوں انہیں ٹیپ سے جوڑنے میں مصروف رہتا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ریکارڈ سنبھالنے والے سابق عہدیدار سولومن لارٹی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا: 'انہیں ایسا کرنے سے کئی بار منع کیا گیا لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔'
لارٹی نے 2018 میں ڈیوٹی کے دوران ٹرمپ کی جانب سے پھاڑی گئی دستاویزات کو ٹیپ سے جوڑنے میں گھنٹوں گزارے۔
صرف اتنا ہی نہیں ایک بار اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن کے ساتھ بات چیت کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے ایک مترجم کے نوٹس بھی ضبط کر لیے تھے۔
ٹرمپ نے اجلاس کے دوران نوٹس لینے پر وائٹ ہاؤس میں اپنے عملے کے ایک رکن کو ڈانٹ بھی پلا دی تھی۔
ایگزیکٹو برانچ کے اعلیٰ عہدیداروں کو ایک سے زیادہ بار یاد دہانی کرانی پڑی کہ نجی ای میل یا انکرپٹڈ ٹیکسٹ میسجنگ سسٹم پر سرکاری رابطے نہ کریں اور اگر ایسا کریں تو اسے محفوظ ضرور رکھیں۔
ٹرمپ کے صدارتی انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھوکہ دہی کے بے بنیاد دعوے کے بارے میں نیشنل آرکائیوز اینڈ ریکارڈ ایڈمنسٹریشن کو دستاویز کی منتقلی میں تاخیر کا سامنا ہے جس سے ریکارڈز کے محفوظ ہونے کے بارے میں تشویش مزید بڑھ جاتی ہے۔
سوسائٹی فار امیریکن فارن ریلیشنز سے وابستہ تاریخ دان رچرڈ ایمرمین نے کہا: ’مؤرخین کو معمول کے مقابلے میں کہیں زیادہ چھیدوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ ٹرمپ کے لیے وائٹ ہاؤس میں ریکارڈ رکھنا کبھی ترجیح نہیں رہی بلکہ ہمارے پاس اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں جب انہوں نے ریکارڈز کو چھپانے یا انہیں ضائع کرنے کی کوشش کی ہو۔‘
لیکن قانون سازوں کی طرف سے بارہا درخواستوں اور حکومتی شفافیت کے لیے کام کرنے والے گروہوں کی طرف سے قانونی چارہ جوئی کے باوجود ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ صدارتی ریکارڈ ایکٹ کی تعمیل نہ کرنے پر ٹرمپ کو سزا نہیں دی جا سکتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدارتی ریکارڈ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر اس وقت تک ریکارڈز کو ختم نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ قومی آرکائیوسٹ سے مشورہ نہ لیں اور کانگریس کو اس کی اطلاع نہ دیں۔ لیکن قانون کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ صدر آرکائیوسٹ کے مشوروں پر لازمی عمل بھی کرے۔
آج کل بیشتر صدارتی ریکارڈز الیکٹرانک ہیں اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ خودکار بیک اپ کمپیوٹر سسٹم ان میں سے بڑی تعداد کو محفوظ کرلیتا ہے لیکن انہیں تشکیل نہ دینے یا لاگ ان نہ کرنے پر سسٹم ان ریکارڈز کو محفوظ نہیں کرسکتا۔
کسی صدر کے کاغذات اور الیکٹرانک ریکارڈز کو محفوظ کرنا ایک محنت طلب کام ہے۔ صدر براک اوباما نے تقریباً تین کروڑ صفحات پر مشتمل کاغذی دستاویزات اور تقریباً 250 ٹیرابائٹ الیکٹرانک ریکارڈز چھوڑے تھے جو ای میل کے تقریباً 15 ارب صفحات کے برابر ہیں۔
جب ٹرمپ نومبر کے انتخاب ہار گئے تو ریکارڈ کے عملے پر لازم تھا کہ وہ 20 جنوری تک قانون کے مطابق الیکٹرانک ریکارڈ منتقل کرنے، کاغذی دستاویزات کو پیک کرکے انہیں نیشنل آرکائیوز میں منتقل کردیں، لیکن ٹرمپ کی ہچکچاہٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ڈیڈ لائن تک ایسا نہیں کر پائیں گے۔
نیشنل آرکائیوز نے اے پی کو بتایا کہ (وائٹ ہاؤس) کے آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ کی جانب سے انتخابات کے بعد کئی ہفتوں تک ضروری فنڈنگ میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے ٹرمپ کے صدارتی ریکارڈز کو نیشنل آرکائیوز میں منتقل کرنے کے انتظامات میں بھی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اگرچہ ان ریکارڈز کی منتقلی 20 جنوری کے بعد نہیں ہوسکتی ہے تاہم نیشنل آرکائیو 20 جنوری کو صدارتی ریکارڈ ایکٹ کے مطابق ان کو قانونی تحویل میں لے لے گا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوڈ ڈیئر نے ہفتے کے روز کہا کہ الیکشن لڑنا صدر کے ریکارڈ کو محفوظ شدہ دستاویزات میں منتقل کرنے میں تاخیر کا سبب نہیں ہے اور عملے کو ان ریکارڈز کو پیک کرنے کے طریقہ کار کے لیے رہنمائی حاصل ہے۔