کرونا ویکسین کی پاکستان میں دستیابی اور قیمت کے حوالے سے مختلف اخباروں اور ویب سائٹس پر کئی طرح کی خبریں چل رہی ہیں۔
پاکستان میں ویکسین کی سرکاری اداروں کو فراہمی کے لیے جس نجی کمپنی کو لائسنس جاری ہوا ہے اس کا نام ’سندھ میڈیکل سٹورز‘ ہے اور وہ چار دہائیوں سے ویکسین درآمد کر رہی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے حقائق جاننے کے لیے سندھ میڈیکل سٹورز کے بزنس یونٹ ہیڈ عثمان غنی سے رابطہ کیا۔
عثمان غنی کا کہنا تھا کہ اخباروں میں کرونا ویکسین کی قیمت کے حوالے سے جو بھی خبریں شائع ہوئی ہیں انہیں نظر انداز کیا جائے۔ ’ہمیں جو بھی قیمت ملے گی وہ منسٹری آف ہیلتھ سے منظور ہونے کے بعد سامنے آئے گی نیز اس قیمت کا تعین بھارتی مینوفیکچرر سے ویکسین کی درآمدی قیمت طے ہونے کے بعد ہو گا۔‘
انہوں نے لائسنس کی ایک کاپی انڈپینڈنٹ اردو سے شیئر کی جس کے مطابق پاکستان میں ایمرجنسی استعمال کے لیے درآمد کی گئی ویکسین کا نام ’کووی شیلڈ‘ ہے اور وہ سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ ہے نیز لائسنس پر واضح طور پہ لکھا ہے کہ اس کی قیمت وفاقی حکومت طے کرے گی۔
عثمان غنی کا مزید کہنا تھا کہ ویکسین کی جو قیمتیں مختلف اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں وہ سب اندازوں پر مبنی ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ قیمتیں بتائی جا رہی ہیں جو سندھ میڈیکل سٹورز نے بڑے سرکاری اداروں یا درمیانے درجے کے سرکاری ہسپتالوں کو ویکسین سپلائی کرنے کے لیے حکومت کو پیشکش کی تھی۔ وہی قیمتیں افواہوں کی شکل اختیار کر گئیں اور ہر جگہ انہیں چھاپ دیا گیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ تاحال عوام تک ویکسین کی فراہمی کے لیے کوئی قیمت مقرر ہوئی ہے نہ ہی اس کا لائسنس سندھ میڈیکل سٹورز کو دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محتاط اندازے کے مطابق عام لوگوں تک ویکسین کی فراہمی چھ ماہ کے عرصے تک ممکن ہے، نیز ویکسین کی قیمت کا بہت حد تک دارومدار ٹیکوں کی اس تعداد پر ہو گا جو ہم آرڈر کریں گے۔
ویکسین کی کتنی تعداد منگوائی جائے گی، اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت کچھ کہنا ممکن نہیں لیکن عنقریب صورت حال واضح ہو جائے گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت نے اپنے ہمسایہ ممالک کو کرونا (کورونا) ویکسین کی فراہمی شروع کر دی ہے نیز بھوٹان اور مالدیپ کو خیر سگالی کے طور پر ویکسین کی پہلی کھیپ بھیج بھی دی گئی ہے، جب کہ بنگلہ دیش اور نیپال کو آج ویکسین کی فراہمی متوقع ہے۔
عثمان غنی سے پوچھا گیا کہ خیرسگالی کے طور پہ بھارت بھوٹان جیسے ملک کو ویکسین بھیج بھی چکا ہے لیکن پاکستان، جس نے پیسے دے کر خریدنی ہے، اسے اب تک کیوں نہیں مل سکی؟ کیا کوئی سرکاری پابندی ہے یا بھارت کی طرف سے کوئی رکاوٹ؟
جواب میں انہوں نے بتایا کہ بھارت سے ویکسین کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہے، اگر ایسی کوئی اطلاعات ہیں تو وہ بالکل غلط ہیں۔ ’ہاں تاحال ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ ویکسین ہم تک پہنچنے کی متوقع ٹائم لائن کیا ہو گی کیونکہ وہ بھارتی اداروں کی اپنی صوابدید اور مقامی سپلائی ترجیحات پر منحصر ہے۔‘
بھارتی وزارت خارجہ نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ یہ ویکسین ’گرانٹ سسٹینس‘ کے تحت بنگلہ دیش، نیپال ، میانمار جیسے ممالک کو بھیجی جائے گی جب کہ سری لنکا، افغانستان اور ماریشس کو ویکسین کی فراہمی کے لیے نگران ادارے سے باقاعدہ منظوری لی جا رہی ہے۔
عثمان غنی سے پوچھا گیا کہ دنیا کے 51 ملک ویکسین منگوا کر یا خود بنا کر اپنے کروڑوں شہریوں کو لگا بھی چکے، جب کہ پاکستان میں ابھی تک اس بارے میں سوچ بچار ہی جاری ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب میں انہوں نے بتایا کہ اگر پاکستان نے پہلے ویکسین امپورٹ نہیں کی تو یہ ایک سمارٹ فیصلہ تھا کیونکہ جن ممالک نے شروع میں ہی ویکسین کے آرڈر دیے انہوں نے ویکسین کی تیاری کے دوران فیز تھری ٹرائل کے مکمل ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا اور اس کی ایڈوانس بکنگ کر لی جو ’بلائنڈ سودا‘ کہلائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ ہمارے لیے نعمت تھی کہ ہم نے ویکسین پہلے آرڈر نہیں کی۔ ابھی تین چار روز قبل ناروے میں جو 23 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے، اور جو اس پر تحقیقات چل رہی ہیں، اگر وہ پاکستان میں خدانخواستہ ہو جاتا تو کیا ہوتا؟‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تازہ میڈیا بریفنگ کے مطابق چین نے بھی پاکستان کو پانچ لاکھ کرونا ویکسین 31 جنوری تک دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فروری تک پاکستان میں 11 لاکھ کرونا کے حفاظتی ٹیکے پہنچ جائیں گے۔ خبررساں ادارے اے پی پی کے مطابق یہ ویکسین صرف طبی عملے کے لیے ہو گی۔
بھارت نے رواں ماہ ہنگامی استعمال کے لیے دو مقامی ویکسینوں کی منظوری دی تھی جس میں ایک ایسٹرا زینیکا کی ویکسین ہے جب کہ دوسری بھارت میں تیار کردہ ویکسین شامل ہیں۔ دونوں ویکسینیں بھارت میں ہی تیار ہو رہی ہیں۔
روئٹرز کے مطابق بھارت ابتدا میں ہمسایہ ممالک کو صرف ایسٹرا زینیکا کی جانب سے بنائی گئی ’کووی شیلڈ‘ نامی ویکسین فراہم کر رہا ہے۔
بنگلہ دیش نے کہا کہ اسے جمعرات کو بھارت سے کووی شیلڈ کی 20 لاکھ خوراکوں کا تحفہ ملنے کی توقع ہے۔
16 کروڑ آبادی والے ملک بنگلہ دیش نے ابھی تک اپنے ویکسینیشن پروگرام شروع نہیں کیا ہے۔ ڈھاکہ نے نئی دہلی سے مزید تین کروڑ خوراکوں کی خریداری کا آرڈر بھی دیا ہے۔
نیپال نے کہا کہ بھارت کی طرف سے اسے 10 لاکھ خوراکیں مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔