اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے جمعے کو فروری میں ریلیوں کا شیڈول جاری کیا ہے جسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کا ممکنہ لانگ مارچ فروری میں متوقع نہیں۔
اس شیڈول کے مطابق پی ڈی ایم نے اگلے مہینے چھ ریلیوں کا منصوبہ بنایا ہے، جو پانچ فروری (راولپنڈی، لیاقت باغ)، نو فروری (حیدر آباد)، 13 فروری (سیالکوٹ)، 16 فروری (پیشین)، 23 فروری(سرگودھا) اور 27 فروری کو خضدار میں ہوں گی۔
پی ڈی ایم میں شامل تینوں بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا بھی اعلان کر چکی ہیں، جس کے بعد مارچ میں سینیٹ الیکشن شیڈول ہیں۔ یوں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لانگ مارچ سینیٹ الیکشن تک ہونے کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں۔
پی ڈی ایم کے اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ آخری آپشن ہے، جس کا شیڈول دیا جائے گا۔اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق انہیں لانگ مارچ شروع ہوتے ہی مطلوبہ ہدف (پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ) حاصل ہو جائے گا اور دھرنے یا اسلام آباد پہنچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی کو دیکھا جائے تو پاکستان میں کوئی تحریک اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوئی جب تک اسے سٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہ ہو جبکہ اس بار حکومت اور سٹیبلشمنٹ ’ایک پیج پر‘ ہیں اور اپوزیشن نے اداروں پر تنقید کر کے اپنے لیے خود مشکلات کھڑی کر لی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری نے واضح کیا کہ پی ڈی ایم نے فروری میں ریلیوں کا جو شیڈول دیا ہے وہ بھی لانگ مارچ کی تیاریوں کے سلسلے کی کڑی ہے۔ ’ضمنی اور سینیٹ انتخابات کی تیاریاں بھی جاری ہیں لیکن ہم لانگ مارچ کی کامیابی کے لیے پرعزم ہیں۔ اپریل میں رمضان شروع ہو جائے گا لہٰذا پی ڈی ایم قیادت کی کوشش ہے کہ مارچ کے آخر تک لانگ مارچ کا شیڈول جاری کر دیا جائے۔‘
پی پی پی کے رہنما چوہدری منظور نے کہا کہ یہ بات معنی نہیں رکھتی کہ لانگ مارچ کے شیڈول کا اعلان کب ہوگا بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اس کے اثرات اور نتائج کیا ہوں گے؟ ’ہمیں پورا یقین ہے کہ جب ملک بھر سے لانگ مارچ کا آغاز ہوگا اور لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل کر اسلام آباد کا رخ کریں گے تو ہمارے مطالبات پورے ہو جائیں گے۔‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کے باوجود ان کا موقف غیر موثر نہیں ہوا۔
جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان اسلم غوری کے مطابق پی ڈی ایم زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بنا رہی ہے۔ ’پہلے عوام میں بیداری کے لیے جلسے کیے، اب ریلیاں نکال رہے ہیں، اس کے بعد لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں لانگ مارچ کے شیڈول کا اعلان ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پی ڈی ایم نے اسمبلیوں سے استعفے دے کر سندھ حکومت توڑنے کی حکمت عملی پر غور اس لیے کیا تھا کہ یوں الیکٹورل کالج ٹوٹ جائے گا اور سینیٹ الیکشن نہیں ہو سکیں گے، تاہم بعد میں قانونی ماہرین سے مشاورت ہوئی تو انہوں نے آگاہ کیا کہ اس حکمت عملی کے باوجود سینیٹ الیکشن ہو جائیں گے، لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ حکمران جماعت کو کھلا میدان نہیں دینا چاہیے اور ضمنی اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ’پی ڈی ایم ٹولے کے استعفے خواب بن گئے، اسلام آباد دھرنا بھی مشکل ہے۔‘ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ مریم نواز کی ’انتشار کی سیاست کو ٹھنڈ لگ چکی ہے۔‘
لانگ مارچ کی کامیابی کا کتنا امکان ہے؟
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ضمنی اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر کے اپوزیشن نے جو حکومت پر پریشر بنایا تھا وہ کم ہو چکا ہے کیونکہ اس فیصلے سے اندازہ ہوا کہ اپوزیشن جماعتیں صرف اقتدار کی جدوجہد کر رہی ہیں، ان کا ہر فیصلہ سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے ہے۔ ’ان کا مسئلہ مہنگائی ہے، نہ بے روزگاری اور نہ ہی بد انتظامی، یہ صرف حکومت بنانے کی جلدی میں ہیں۔‘
سلمان غنی کے مطابق ’ماضی میں ایسی کوئی سیاسی تحریک کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دی جس کے پیچھے سٹیبلشمنٹ نہ ہو لیکن اس بار مختلف یہ ہے کہ سٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں، دوسرا یہ کہ اپوزیشن نے اداروں پر تنقید کر کے اپنے مخالف کھڑا کر رکھا ہے۔‘