لاہور میں موٹر وے پر پیش آنے والے ریپ کیس کو چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو پولیس نے گذشتہ برس 12 اکتوبر کو گرفتار کیا جبکہ ایک ملزم شفقت علی کو پولیس پہلے ہی گرفتار کرچکی تھی۔
موٹر وے ریپ کیس نو ستمبر 2020 کو لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر تھانہ گجر پورہ کی حدود میں پیش آیا تھا، جہاں پیٹرول ختم ہوجانے پر سڑک پر کھڑی گاڑی میں بیٹھی ایک خاتون کا ان کے بچوں کے سامنے گینگ ریپ کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے نہ صرف اقبال جرم کیا جبکہ شناخت پریڈ کے دوران متاثرہ خاتون نے دونوں ملزمان کی شناخت بھی کرلی تھی، مگر اس کے باوجود پولیس ان ملزمان کا چالان ابھی تک عدالت میں جمع نہیں کروا سکی۔
پیر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اس کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی اور شفقت علی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 30 جنوری تک توسیع کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر مقدمے کا چالان پیش کرنے کا حکم دیا۔
اس موقع پر دونوں ملزمان کو بھی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس کیس کے تفتیشی افسر ذوالفقار چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کا چالان تیاری کے آخری مرحلے میں ہے، لہذا انہیں کچھ مزید مہلت دی جائے۔
ملزمان کی گرفتاری کو کئی مہینے بیت چکے ہیں، مگر پولیس اب تک چالان جمع نہیں کروا سکی۔ اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے کیس کے تفتیشی افسر ذوالفقار چیمہ سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ پولیس نے پیر کوعدالتی کارروائی کے بعد پراسیکیوشن کو چالان جمع کروا دیا ہے، تاہم چالان جمع کروانے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ اس بات کا جواب انہوں نے نہیں دیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا متاثرہ خاتون اس کیس میں پورا تعاون کر رہی ہیں تو ذوالفقار چیمہ نے کہا: 'وہ کیوں تعاون نہیں کریں گی؟ ان کے ساتھ حادثہ پیش آیا ہے، اس لیے وہ بھرپور تعاون کر رہی ہیں۔'
متاثرہ خاتون کے فرانس واپس جانے کے حوالے سے تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ 'اس بارے میں مجھے نہیں معلوم نہیں، لیکن وہ پولیس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔'
دوسری جانب جب اس کیس کے پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'چالان جمع کروانے میں پولیس کی جانب سے تاخیر ہوئی ہے۔ وقت پر چالان جمع نہ کروانے کی وجوہات پولیس بہتر جانتی ہے، مجھے اندازہ نہیں ہے کہ کیوں تاخیر ہوئی؟'
جب انہیں بتایا گیا کہ تفتیشی افسر ذوالفقار چیمہ کے مطابق گذشتہ روز چالان پراسیکیوٹر کو جمع کروا دیا گیا تو وہ حیرت زدہ ہوگئے اور کہا: 'میری ذمہ داری ایسی ہے کہ میں ان کی اس بات پر کوئی تاثر یا تبصرہ نہیں دے سکتا۔'
کیا یہ پہلا کیس ہے، جس میں عدالت میں چالان جمع کروانے میں اتنی تاخیر ہوئی؟
اس حوالے سے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور کرمنل ٹرائلز کے ماہر فرہاد علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'یہ پہلا کیس نہیں ہے جس میں چالان جمع کروانے میں اتنی دیر ہوئی۔ ویسے تو ملزم کے پولیس حراست میں آنے کے بعد جب عدالت اسے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجتی ہے تو اس کے 14 روز کے اندر مجموعہ ضابطہ فوجداری 173 کے تحت ملزم کا چالان عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے، لیکن پولیس 14 روز کے اندر کبھی بھی چالان نہیں بھجواتی جس کی مختلف وجوہات ہیں۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پولیس کے پاس عملے کی کمی ہے اور کیسز بہت زیادہ ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایک افسر ایک وقت میں 50 ، 50 کیسز کی تفتیش کر رہا ہوتا ہے۔'
'دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ تفتیش کے لیے انویسٹی گیشن ہیڈ کو رقم ملتی ہے، جس کی بندر بانٹ اعلیٰ افسران ہی آپس میں کر لیتے ہیں اور پیسے تفتیشی افسر تک نہیں پہنچتے، جس کی وجہ سے وہ مقررہ وقت کے اندر تفتیش مکمل کرکے چالان نہیں بھجوا پاتے۔'
'تیسری وجہ یہ ہے کہ پولیس کے پاس اور اتنی ڈیوٹیاں ہیں کہ جب آپریشن پولیس وی آئی پی ڈیوٹیوں جیسے کہ میچ یا کسی سیاسی جلسے کی سکیورٹی پر مامورت ہو تو انویسٹی گیشن ونگ سے لوگوں کو نکال کر آپریشنل پولیس کے کاموں پر لگا دیا جاتا ہے۔'
'چوتھی وجہ یہ ہے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کہنے کو تو خود مختار ہے لیکن ان پر بہت زیادہ سیاسی دباؤ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ نہیں چاہتے کہ چالان وقت پر عدالت بھجوایا جائے۔ کیس کو روک کر رکھنے کی وجہ سے بھی معاملہ خراب ہو جاتا ہے۔'
ایڈووکیٹ فرہاد علی شاہ کے مطابق موٹر وے ریپ کیس یقیناً ایک حساس کیس ہے لیکن پولیس کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ اس کیس کی کیا نوعیت تھی۔
انہوں نے بتایا:' موٹروے ریپ کیس میں پولیس نے پہلے دن سے ہی پریس کانفرنسوں میں عابد ملہی اور دوسرے ملزم کی تصاویر دکھا کر ان کی شناخت ظاہر کردی تھی۔ آدھا کیس تو ملزمان کی گرفتاری سے پہلے ہی ان کی شناخت بتا دینے سے خراب ہو گیا تھا۔ اب پولیس کی ایک بہت بڑی ناکامی ہوگا اگر یہ ملزمان عدالت سے رہا جاتے ہیں۔ یہ پولیس کے منہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ ہوگا اور میرے خیال میں ان ملزمان کے عدالت سے چھوٹ جانے کے 110 فیصد چانسز ہیں۔'
فرہاد علی شاہ کے مطابق: 'اس طرح کے کیسز، جن پر بہت لے دے ہوئی ہو، میں پولیس روایتی طور پر جعلی مقابلے کرتی ہے اور ملزمان کو مار دیتی ہے۔ ان دونوں ملزمان کے جعلی پولیس مقابلے کی تیاری بھی پوری تھی، لیکن کورٹ میں رِٹ ہوئی اور اس وقت کے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ اگر جعلی مقابلہ ہوا تو سی سی پی او کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ یہ مکالمہ لاہور ہائی کورٹ میں چیف جسٹس قاسم خان اور سابقہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے درمیان کمرہ عدالت میں ہوا۔ اس پر عمر شیخ نے انہیں یقین دلایا کہ کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوگا۔'
'اب اس کیس میں پولیس نے پہلے ہی ملزمان کی شناخت ظاہر کر دی جس کے بعد شناخت پریڈ، جس کے ذریعے ثبوت کو لنک کیا گیا، کی اہمیت ختم ہوگئی تھی۔ بطور ایک کرمنل وکیل مجھے لگتا ہے کہ پولیس اپنی ان ہی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے چالان نہیں دے رہی۔'
اصولاً و قانوناً کیا ہونا چاہیے؟
قانون کے مطابق ایسے کیسز میں ہونا یہ چاہیے کہ جب ملزمان پکڑے جائیں تو 14 روز میں ان کا چالان بنا کر بھیجا جائے جسے پراسیکیوشن پاس کرے اور وہ عدالت میں جمع ہو جائے اور عدالت اس پر عدالتی کارروائی شروع کرے۔
یہ سینکشنڈ ٹرائل ہےاور اس کی کارروائی مجموعہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 265 میں بتائی گئی ہے۔ اس میں پہلے عدالت کو چالان فراہم کیا جائے گا، جس کے بعد فرد جرم عائد ہوگی اور اس کے بعد پراسیکیوشن کو موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے گواہان کے بیانات ریکارڈ کرائیں اور ملزم سے جرح کرے۔ یہ مکمل ہونے کے بعد مرحلہ آئے گا 342 کا۔ جس کے دوران گواہان کے بیانات کے بعد ملزم سے سوالات کیے جائیں گے کہ اس کے خلاف یہ کیس کیوں ہیں، ثبوت کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔
342 کی کارروائی پوری ہونے کے بعد عدالت میں جرح ہوگی۔ پہلے پراسیکیوٹر اور اس کے بعد ملزم اپنی جرح مکمل کرے گا جس کے بعد عدالت حتمی فیصلہ سنائے گی۔