’ہم تو اپنی زندگی داؤ پر لگا کر کام کر رہے ہیں۔ گیشتری واقعے نے خوف مزید بڑھا دیا ہے۔ اب کوئلے کی کان کے اندر بھی موت اور باہر بھی یہی خطرہ لاحق رہتا ہے۔‘
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے عارف بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کان میں مزدوری کرتے ہیں۔
عارف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تین ہفتے گزر جانے کے باوجود آج بھی ہم رات کو سوتے میں کبھی گاڑی یا کسی اور آواز سے ڈر جاتے ہیں۔ اگر کوئی دروازہ کھٹکھٹائے تو ہماری جان نکل جاتی ہے۔‘
’اس واقعے نے اتنی دہشت پھیلادی ہے کہ روزانہ موت کا مقابلہ کرنے والے مزدور بھی یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔‘
یاد رہے کہ دو اور تین جنوری کی رات مچھ کے علاقے گیشتری میں مسلح افراد نے ہزارہ برادری کے دس کان کنوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا، جس کے خلاف لواحقین اور ہزارہ برادری کے دیگر افراد نے لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر چھ دن تک دھرنا بھی دیا تھا۔
عارف اور ان کے دیگر ساتھی شاہراہ بولان کے قریب پہاڑوں کے دامن میں کوئلہ نکالنے کا کام کرتے ہیں اور سکیورٹی کے انتظامات کے باوجود انجانے خوف کا شکار ہیں۔
عارف نے بتایا کہ جب یہ واقعہ ہوا اور میرے گھر والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے مجھے کہا کہ کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں فوری واپس آجاؤ۔
عارف کے مطابق: ’یہ حقیقت کہ ہم اپنے کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، کیونکہ کان کے اندر جانے کے بعد کسی کو یقین نہیں ہوتا کہ کبھی واپس باہر بھی آسکتے ہیں۔‘
مچھ کی کوئلہ کانوں میں ہزارہ قوم کے علاوہ افغانستان، خیبرپختونخوا اور مقامی مزدور بھی کام کرتے ہیں، لیکن موجودہ صورت حال میں مزدوروں کے ساتھ کان مالکان بھی پریشانی کا شکار ہیں، کیونکہ مزدوروں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔
حاجی مولا بخش کول کمپنی کی اس علاقے میں 40 کے قریب کوئلے کی کانیں ہیں، جن میں سے اب صرف 12 پر کام جاری ہے۔
منظور سمالانی بھی کان کے مالک ہیں۔ اگرچہ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ کان میں کام جاری ہے، لیکن وہ بھی مزدوروں کی طرف بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہیں۔
منظور سمالانی نے بتایا کہ اس واقعے نے بہت دہشت پھیلا دی ہے اور مزدور اب بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
منظور کے بقول: ’کام تو جاری ہے، لیکن میری کان میں آدھے مزدور کام کر رہے ہیں۔اکثر چلے گئے اور واپس نہیں آئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’مالکان اور مزدور پہلے سے ہی مشکلات کا شکار تھے اور اس واقعے نے ہماری مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔‘
منظور سمالانی دو کوئلہ کانوں کے مالک ہیں، جن کے پاس گیشتری واقعے سے پہلے 22 مزدور کام کرتے تھے۔ لیکن اب صرف دس مزدور کام کر رہے ہیں۔
مزدور تنظیموں کے مطابق مچھ اور ملحقہ علاقوں میں تقریباً دس ہزار سے زائد کان کن کرتے تھے۔
منظور سمالانی کے مطابق ان کانوں کے اطراف میں فرنٹیئر کور کی چوکیاں قائم کردی گئی ہیں جبکہ لیویز کے اہلکار بھی علاقے میں گشت کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ مچھ میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے تحفظ کے لیے اقدامات سے مزدور خود کو محفوظ سمجھنے لگیں گے۔
مزدوروں تنظیموں کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2020 میں پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں ہونے والے حادثات میں 208 کان کن ہلاک ہوئے، جن میں سے 108 کا تعلق بلوچستان سے تھا۔
ادھر کوئلہ کانوں کے مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک تنظیم کے صدر اقبال یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ گیشتری واقعہ نے اس صنعت پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔اقبال یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مچھ میں پہلے سے ہی سکیورٹی خدشات کے باعث مزدور ڈر اور خوف کا شکار تھے، تاہم اس واقعے نے اس میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گیشتری واقعے کے بعد 1500 مزدور کام چھوڑ کر چلے گئے ہیں جبکہ مارگٹ کی بندش سے ساڑھے تین ہزار مزدور پہلے ہی بیروزگار ہوچکے ہیں۔
اقبال نے بتایا کہ ہزارہ برادری پر حملے کے واقعے سے قبل مچھ اور ملحقہ علاقوں سے روزانہ کی بنیاد پر 1800 ٹن کوئلہ نکل رہا تھا، جو اب 500 سے 600 ٹن رہ گیا ہے۔
مزدور تنظیموں کے مطابق کرونا وائرس کے دوران سول انتظامیہ نے یہاں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 17 ہزار ریکارڈ کی تھی۔
اقبال یوسفزئی نے بتایا کہ حالیہ واقعے کے بعد مزدوروں میں خوف کا عنصر موجود ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ روزانہ کان کے اندر موت سے لڑتے ہیں۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق صرف پانچ ہزار کے لگ بھگ مزدور رہ گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مچھ اور ملحقہ علاقوں میں 68 علاقے کانوں کے لیے الاٹ ہوچکے ہیں، جن میں سے 1200 سے زائد کانوں پر کام ہو رہا ہے جبکہ سینکڑوں بند پڑے ہیں۔
اقبال سمجھتے ہیں کہ کوئلے کو صنعت کا درجہ تو نہیں مل سکا ہے، لیکن یہ روزگار کی فراہمی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ وہ اسے ملکی معیشت میں بہتری کا ذریعہ بھی قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی معیشت بیٹھ گئی تھی، اسے کوئلے کی صنعت نے سہارا دیا اور اب وہ کہاں کھڑا ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں مچھ اور کوئٹہ کے نواحی علاقوں مارواڑ سمیت ہرنائی، دکی اور چمالانگ میں بھی ہیں۔
اقبال یوسفزئی نے بتایا کہ بلوچستان میں جہاں جہاں کوئلے کی کانیں ہیں، اندازاً ان میں 50 سے 60 ہزار مزدور ہوسکتے ہیں۔
سکیورٹی خدشات کیسے دور ہوں گے؟
اقبال بھی مزدوروں اور مالکان کی طرح سکیورٹی کے مسائل سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی کے مسائل پہلے بھی موجود تھے، تاہم گیشتری میں ہزارہ برادری پر حملے نے مزید مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقبال کے مطابق: ’ہم وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حکام کے ساتھ حالیہ دنوں میں بھی ملاقات ہوئی، جس میں کان مالکان بھی شریک تھے، لیکن ابھی تک کوئی گرین سگنل نہیں ملا کہ سکیورٹی کیسے دی جائے گی اور کام کیسے شروع ہوگا۔ ہم بھی تذبذب کا شکار ہیں۔‘
اقبال یوسفزئی کے مطابق: ’مچھ کی کوئلہ کانوں سے مختلف اداروں کو فی ٹن کوئلے پر ایک ہزار روپے ٹیکس مل رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ کوئلے کی کان کوئی دکان نہیں جسے جب چاہا بند کردیا اور جب چاہا کھول دیا۔ یہ اگر بند رہے گی تو کروڑوں روپے کے نقصان کا باعث بنے گی کیوں کہ بندش کے باعث اس میں پانی آجاتا ہے، جس سے کان کے بیٹھ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
گو کہ کوئلہ کانوں کے مزدور اور مالکان کسی حد تک سکیورٹی اقدامات سے مطمئن نظر آتے ہیں، لیکن وہ گیشتری میں لرزہ خیز واقعے کی شدت کو بھولے نہیں اور انہیں اب بھی ایک دھڑکا لگا رہتا ہے۔