خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں میں آئے روز لیشمنائسس نامی بیماری کے مریضوں کی تعداد بڑھنے سے ایک نئی بے چینی کی فضا پھیل گئی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ بیماری جان لیوا نہیں ہے، تاہم اس سے جلد کے بدنما ہونے اور صورت بگڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
اگرچہ لیشمنائسس سے متاثرہ زیادہ تر افراد کے کیسز جنوبی وقبائلی اضلاع سے رپورٹ ہو رہے ہیں، لیکن انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والے ڈیٹا کے مطابق پاکستان بھر سے اس بیماری کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔
پشاور میں کوہاٹ روڈ پر اس بیماری کے علاج کے لیے مخصوص ہسپتال نصیر اللہ خان بابر (سٹی ہسپتال) جہاں بین الاقوامی تنظیم ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) اور محکمہ صحت کے تعاون سے اس بیماری کا علاج کیا جاتا ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے پاس روزانہ کم سے کم 15 اور زیادہ سے زیادہ 25 لیشمنائسس کے مریض آتے ہیں۔
نصیر اللہ بابر ہسپتال کی نائب میڈیکل سپرنٹنڈنٹ فردوس جبین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بدقسمتی سے لیشمنائسس ’نظر انداز کی گئی‘ بیماریوں میں سے ایک ہے اور اگر اس کی بروقت تشخیص نہ ہو تو نہ صرف یہ جلد پر اپنے بدنما نشان چھوڑ دیتی ہے بلکہ متاثرہ شخص پوری زندگی کے لیے نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔
ہسپتال کے طبی عملے کے مطابق ان کے پاس ہر ماہ 250 سے 300 تک لیشمنائسس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی کے مطابق ان کی چھ ماہ کی بچی کو آبائی گاؤں درہ آدم خیل میں لیشمنائسس کی بیماری لگی تھی، تاہم انہیں اس بیماری سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے کئی دوسری جگہوں سے علاج کروانا پڑا۔
آسیہ نے بتایا: ’پھر کسی نے بتایا کہ یہ تو ایک مچھر سے لگنے والی بیماری ہے، لہذا ہمیں اس ہسپتال کا بتایا گیا۔ ڈاکٹر نے 12 انجیکشن لگوانے کی تجویز دی ہے۔ اگر اس سے بیماری ٹھیک نہیں ہوئی تو انجیکشنز کی یہ تعداد 28 تک جائے گی۔‘
ایم ایس ایف کے مطابق لیشمنائسس کے لیے پاکستان میں صرف دو صوبوں میں چار مراکز قائم کیے گئے ہیں، جن میں دو خیبر پختونخوا اور دو بلوچستان میں واقع ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دوسرا مرکز بنوں میں ہے، تاہم اس بیماری سے متاثرہ مریض دوسرے سرکاری ہسپتالوں کا رخ بھی کرتے رہتے ہیں۔
ایم ایس ایف کے مطابق پاکستان میں پائی جانے والی ’کیوٹینئس لیشمنائسس‘ کی دوا مقامی طور پر تیار نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے مریضوں کے علاج کا دارومدار بین الاقوامی اداروں جیسے کہ ڈبلیو ایچ اور ایم ایس ایف کے عطیات پر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا علاج مہنگا اور ہر ہسپتال یا کلینک میں ممکن نہیں ہے۔
زیادہ تر مریض جنوبی اور قبائلی اضلاع سے کیوں آرہے ہیں؟
ایم ایس ایف کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2018 کے بعد لیشمنائسس کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور نومبر 2018 کے بعد تقریباً 28 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے اکثریت کا تعلق قبائلی اضلاع اور جنوب کے دور دراز علاقوں سے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب نصیر اللہ بابر ہسپتال کی انتظامیہ کے مطابق ان کے پاس 2020 میں کل 896 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے جو کرونا وبا کی وجہ سے دوسرے سالوں کی نسبت کم تعداد ہے۔
ہسپتال نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ اکثریت کا تعلق جنوبی اور قبائلی اضلاع سے ہے، تاہم ان کے پاس خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں جیسے کہ پشاور، ایبٹ آباد، شانگلہ، سوات، بونیر، صوابی یہاں تک کہ پنجاب، اسلام آباد اور افغانستان سے بھی لیشمنائسس کے مریض آتے ہیں۔
البتہ ابھی تک مکمل طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ مریض زیادہ تر قبائلی اور جنوبی اضلاع میں کیوں پائے جارہے ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق اس قسم کے مچھر مرطوب اور نیم مرطوب علاقوں میں پائے جاتے ہیں، تاہم اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی، انسانی نقل مکانی، گندگی کے ڈھیر، پانی کے جوہڑ اور غذائیت کی کمی ایسے عوامل ہیں جن کو تاحال اس بیماری کا سبب گردانا جارہا ہے۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور سٹی ہسپتال کے طبی ماہرین کے مطابق مختلف ریسرچز سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پالتو جانوروں کو بھی اس مرض کو پھیلانے کی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ جنوبی اور قبائلی اضلاع میں پسماندگی زیادہ ہے، لہذا یہ خیال کیا جارہا ہے کہ شاید اسی سبب مختلف عوامل نے اس مرض کو پھیلنے میں کردار ادا کیا ہو۔
بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
نصیر اللہ بابر ہسپتال میں لیشمنائسس کے مریضوں کا علاج کرنے والی ڈرماٹولوجسٹ سارہ جہانداد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لیشمنائسس ایک ایسی بیماری ہے جو مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ اس بیماری میں مچھر سے جسم میں داخل ہونے والا جراثیم (پیراسائٹ) جِلد کو کھا جاتا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ لیشمنائسس سے بچاؤ کا طریقہ وہی ہے جو ڈینگی کے مچھر کے لیے اپنایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’چونکہ یہ مچھر زمین سے دو، تین فٹ سے زیادہ اونچائی پر نہیں اڑ سکتا، لہذا زمین پر بیٹھنے یا سونے سے احتیاط کی جائے۔ سوتے وقت مچھر دانی کا استعمال کیا جائے، جلد کو ڈھانپا جائے اور موزے اور دستانے پہنے جائیں۔‘
ماہرین صحت کے مطابق اگر اس بیماری کی بروقت تشخیص ہو اور لوگوں میں آگہی پھیلائی جائے تو اس سے بچاؤ ممکن ہے۔