پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں پولیس کے شعبہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے رواں ہفتے وفاقی حساس ادارے کی مدد سے کراچی کے سرجانی ٹاؤن کی خدا کی بستی میں کارروائی کرتے ہوئے فرقہ پرست عسکری تنظیم زینبیون بریگیڈ سے وابستہ ایک ملزم کو گرفتار کر لیا۔
سی ٹی ڈی کے ایس پی آپریشنز عارف عزیز کے مطابق عباس جعفری ریڈ بک میں انتہائی مطلوب شدت پسند یاور عباس کا دست راست ہے اور 2014 میں پڑوسی ملک سے عسکری تربیت حاصل کی۔
عارف عزیز کے مطابق ملزم میڈیکل ایڈ سرویلنس اور خود کار ہتھیاروں میں مہارت رکھنے کے ساتھ متعدد نوجوانوں کوعسکری ٹریننگ کے لیے پڑوسی ملک لے جا چکا ہے جنہیں کراچی میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ملزم نے شہرمیں کئی اہم وارداتوں میں ریکی بھی کی۔
سی ٹی ڈی نے کراچی سے حالیہ دنوں عسکری تنظیم زینبیون بریگیڈ سے منسلک کئی افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
تنظیم زینبیون بریگیڈ کیسے وجود میں آئی؟
2000 میں شام میں صدر بننے والے بشار الاسد کے خلاف 2011 میں ہونے والے حکومت مخالف اور بےروزگاری، بدعنوانی اور سیاسی پابندیوں کے خلاف پرامن احتجاج نے جلد ہی کھلم کھلا خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ شام کی جنگ کے کچھ عرصے بعد فرقہ واریت میں بٹ گئی اور سیرئن آبزرویٹری فار ہیوم رائٹس کے مطابق اس جنگ میں اب تک تقریباً چار لاکھ تصدیق شدہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
شام میں جنگ چھڑنے کے بعد کئی ممالک کی شدت پسند تنظیموں نے شام کا رخ کیا۔ امریکی سکیورٹی اور کنسلٹنٹ فرم سوفان گروپ کے مطابق 2016 تک شام میں 81 ممالک کی شدت پسند تنظیمیں موجود تھیں۔ البتہ پاکستانی شدت پسند تنظیموں کو شام آنے میں کچھ عرصہ لگا۔
2013 میں شام کے دارالحکومت دمشق میں بی بی زینب کے روضے اور دیگر مقدس مقامات پر حملے کے بعد بی بی زینب کے روضے کی حفاطت کے لیے دو تنظیمیں بنائی گئی، جن میں پاکستانی شدت پسند تنظیم سپاہ محمد کی زینبیون بریگیڈ میں پاکستانیوں کو لیا گیا تاکہ وہ شام جاکر لڑائی میں حصہ لے سکیں۔
2015 میں زینبیون بریگیڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر بھرتیوں کے متعلق جاری مہم میں کہا گیا تھا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں۔ بھرتی ہونے والے کو 12 سو امریکی ڈالر ماہوار تنخواہ اور ہر تین ماہ بعد 15 دن کی چھٹیاں ملیں گی۔ ویسے تو بھرتی پاکستان بھر سے کی گئی مگر اکثریت پاڑہ چنار اور سابق فاٹا سے شامل ہوئی۔ جب کہ کچھ بلوچ بھی بھرتے کیے گئے مگر ان کا ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ ان کا تعلق پاکستانی بلوچستان سے تھا یا ایرانی بلوچستان سے۔
زینبیون بریگیڈ کے اکثریت رضاکاروں کو دمشق میں ہی رکھا گیا تھا۔ شدت پسندی کے موضوع پر مہارت رکھنے والے تجزیہ نگار اور کراچی کے صحافی روحان احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے والوں میں سے چند کا تعلق پہلے سے پاکستان میں کسی شیعہ تنظیم یا گروپ سے تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ادارے اس تنظیم کے حوالے سے زیادہ کھل کر بات نہیں کرتے کیونکہ زینبیون کا نام جب بھی آتا ہے اس کے ساتھ پڑوسی ملک ایران کا نام بھی سامنے ہے، انہیں اس بات کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں ان کے بیانات سے پاکستان کے ایران سے تعلقات پر برا اثر نہ پڑے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ شام میں لڑنے کے لیے افغانستان کے رضاکاروں کا فاطمیون بریگیڈ نامی گروپ بنایا گیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے ایران میں موجود 30 لاکھ سے زائد افغان تارکین وطن کو فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی کیا۔ ایران نے فاطمیون بریگیڈ میں بھرتی ہونے والے افغانوں کو ایرانی شہریت دینے کا اعلان کیا تھا، جبکہ پاسداران انقلاب اور قدس فورس نے رضاکاروں کو 11 سو امیرکی ڈالر ماہانہ تنخواہ دی۔
زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون بریگیڈ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں کے ملیشیا گروہ ہیں۔
انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی عمر شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زینبیون بریگیڈ کے پاکستانی اور فاطمیون بریگیڈ کے افغان رضاکار ایرانی پاسداران انقلاب کے بازو قدس فورس کی معرفت شام میں شدت پسند لڑائی لڑنے گئے۔
ان کے مطابق: ’زینبیون بریگیڈ میں پاکستان سے ہرقسم کے شیعہ بشمول اردو بولنے والے شیعہ، پارہ چنار اور گلگت کے شیعہ بھی گئے۔ شام جا کر لڑائی میں حصہ لینے پاکستان سے کتنے لوگ گئے، اس کی درست تعداد بتانا مشکل ہے، کیوں کہ کچھ لوگ غیر قانونی طریقے سے گئے تو کچھ لوگ مذہبی زیارتوں پر گئے اور وہاں سے ہی شام چلے گئے۔ میرا اندازہ ہے کہ دو ہزار سے آٹھ ہزار افراد پاکستان سے شام گئے ہیں۔‘
دنیا بھر میں جیسے شدت پسند تنظیمیں کمزور ہوئی ہیں اسی طرح شام میں القاعدہ سے منسلک سلفی جہادی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ فی عراق والشام (آئی ایس آئی ایس) المعروف داعش اور شام میں جنگ لڑنے والی دیگر تنظیمیں بھی کمزور ہوئی ہے۔ عمر شاہد کے مطابق گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان سے شام جانے والے زینبیون بریگیڈ کے افراد وطن واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔
’ہم زینبیون بریگیڈ کی کراچی میں موجودگی کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم ان کے واپسی پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں زینبیون بریگیڈ سے وابسطہ چند شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ باقی بچے ہوئے افراد کے لیے بھی چھاپے مارے جارہے ہیں۔‘
تاحال شدت پسند تنظیمیں پاکستان میں موجود ہیں؟
پاکستان میں وفاقی حکومت کے انکار کے باوجود داعش 2013 سے موجود رہی ہے۔ 2013 اور 2014 میں پاکستان بھر کے متعدد شہروں بشمول کراچی، ملتان، بنوں اور بلوچستان کے کئی شہروں میں داعش کی حمایت میں وال چاکنگ ایک معمولی بات تھی اور اس وقت پشاور میں بھی داعش کے پیمفلٹ تقسیم کیے جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
پاکستان میں کئی آپریشنز کے باوجود یہ شدت پسند تنظیمیں تاحال موجود ہیں۔ پشاور میں انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہاراللہ کے مطابق گذشتہ ہفتے پشاور میں تحریک آزادی القدس پاکستان نے جنوری 2020 میں امریکی فضائی حملے میں مارے جانے والے ایران جنرل قاسم سیلمانی کے حق میں لگے بینرز نظر آئے۔
اظہاراللہ نے بتایا کہ انہوں نے اس سلسلے میں ڈی سی پشاور سے بات کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے بات نہیں کی اور دوسرے دن یہ بینرز ہٹا لیے گئے تھے۔