ایرانی نژاد برطانوی ماہر تعلیم، جنہیں ’مخالف حکومت کے لیے کام کرنے‘ کے میں الزام ایران میں سزا سنائی گئی تھی، ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ملک سے فرار ہو کر لندن پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ایران میں خواتین کے ختنہ (ایف جی ایم) اور بچوں کی شادی پر تحقیق کرنے والے ماہر بشریات کمیل احمدی کو ایرانی عدالت نے نو سال کی سزا سنائی تھی اور انہیں نظر بندی سے قبل جیل میں رکھا گیا تھا۔
احمدی نے برطانوی نشریاتی ادارے ’چینل فور نیوز‘ کو بتایا کہ وہ کیسے عدالت میں پیشی کا انتظار کرتے ہوئے ایران سے فرار ہوگئے۔ انہوں نے بدنام زمانہ ایوین جیل میں قید کے دوران گزارے گئے 100 دنوں کے خوفناک تجربات بیان کیے جہاں انہیں تنہا قید میں رکھا گیا۔ اسی جیل میں اس سے قبل ایرانی نژاد برطانوی شہری نازانین زاغاری ریٹکلف کو بھی قید میں رکھا گیا تھا۔
بدھ کی شام فور نیوز پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں احمدی نے ایران میں خود پر بیتے ہوئے حالات کو بیان کرتے ہوئے بتایا: ’پوچھ گچھ کے پہلے یا دوسرے ہفتے کے دوران وہ آپ کی آنکھوں پر ہر وقت پٹی باندھے رکھتے ہیں اور پھر آخر کار وہ اس (اذیت) کو تھوڑا سا کم کر دیتے ہیں۔‘
انہوں نے جیل کے حالات بیان کرتے ہوئے مزید بتایا: ’آپ کو بنیادی طور پر ایک کمرے میں دھکیل دیا جاتا ہے اور پھر آپ محافظوں کی جانب سے دروازے کو بند کرنے اور قفل لگانے کی آوازیں سنتے ہیں اور پھر کوئی آپ کو دروازے کے پیچھے کہے گا کہ آپ اپنی آنکھوں سے پٹی ہٹا سکتے ہیں۔ اور جب آپ ایسا کرتے ہیں تو میں نے خود کو ایک قبر کی طرح چھوٹے سے کمرے ہیں موجود پایا، وہ ایک قبر جیسا تھا، جہاں آپ چل بھی نہیں سکتے۔ آپ یہاں محض بیٹھنے، کھڑا ہونے یا پھر لیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ جیل میں انسانوں سے رابطے اتنے محدود تھے کہ وہ بس اپنے سیل میں صرف کھانا یا پانی دھکیلنے والے ہاتھوں کو ہی دیکھ پاتے تھے اس کا مطلب تھا کہ تفتیش کے لیے باہر لے جانے والا عمل ان کے لیے تسکین کا باعث ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پوچھ گچھ آپ کی واحد ’تفریح‘ یا ’لائف لائن‘ لگنے لگتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’آپ اپنے سیل میں واپس نہیں جانا چاہتے کیوں کہ آپ وہاں جانے سے ڈرتے ہیں اور یہ ایک فوبیا کی طرح ہے۔ آپ یقیناً وہاں واپس جانا نہیں چاہیں گے۔ اور پھر ایک ایسا لمحہ آتا ہے جب آپ چیخنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کا دل زور سے دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے اور اس چھوٹی سی جگہ کا اتنا خوف ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ وہاں آکسیجن نہیں ہے۔ وہاں سانس لینے کے لیے ہوا نہیں ہے۔ یہ ایک یا دو دن کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک ہفتے یا ایک مہینے کی بھی بات نہیں ہے۔ یہ چلتا رہتا ہے اور بالآخر آپ ذہنی طور پر معذور اور اپنے ماحول سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’اور یہاں تک کہ جب وہ آپ کو آدھا گھنٹہ تازہ ہوا میں لے جائیں تب بھی آپ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ آپ کو کچھ نظر نہیں آتا۔ آپ محض چند آوازیں سنتے ہیں، ہوا چلنے کی آواز، پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں لیکن آپ کو کوئی دوسرا انسان نظر نہیں آتا۔ آپ کا کوئی انسانی رابطہ نہیں رہتا۔ تنہائی کی قید یہی ہے۔‘
نو سال قید کی سزا سنانے کے بعد ملک سے فرار ہونے کے اپنے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمدی نے کہا: ’میں عدالت گیا۔ ایک بار پھر مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ جج تو سکیورٹی سروسز کے آگے بے بس ہے اور چند ہفتوں بعد مجھے نو سال اور تین ماہ کی سزا سنا دی گئی۔‘
’ایک سادہ حساب کتاب سے مجھے صرف یہ احساس ہوا کہ میرا بیٹا قریب قریب 15 سال کا ہو چکا ہو گا۔ میں سوچتا رہتا تھا کہ میں ان 10 سالوں میں کہاں ہوں گا؟ ایوین جیل میں۔ میرا نوجوان بیٹا ہر دو ہفتوں بعد آدھے گھنٹے کے لیے مجھ سے ملنے آیا کرے گا یا فون پر مجھ سے بات کرے گا، ہمارے درمیان کوئی جذباتی تعلق نہیں بن پائے گا۔‘
’ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے واقعتاً یہاں سے فرار ہونے کی ضرورت ہے حالانکہ اس پر عمل کرنا میرے لیے بہت خطرناک ہو سکتا تھا اور اگر میں ناکام ہو جاتا تو میرے حالات اور بھی خراب ہو جاتے۔ لیکن پھر میں نے فیصلہ کیا اور میں فرار ہوگیا۔‘
کمیل احمدی نے برطانیہ واپس لوٹنے کے احساس کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا تھا ’جیسے اس جگہ، جہاں میں تبدیلی لانا چہاتا تھا، سے نکلنے پر مجبور ہونے کے بعد اپنے دوسرے گھر آنا۔‘
© The Independent