اپنے پہلے مواخذے کے ایک سال بعد سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سینیٹ میں منگل سے شروع ہونے والے دوسرے غیر معمولی ٹرائل میں کڑی آزمائش سے گزرنا ہو گا جس میں ایوان کے ارکان اس بات کا تعین کریں گے کہ کیا انہوں نے اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل پر پرتشدد حملے ترغیب دی تھی یا نہیں۔
امریکی تاریخ میں پہلی بار سو سینیٹرز ایک صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی کا آغاز کریں گے جو پہلے ہی اپنے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔
ٹرمپ ایک ایسے سیاسی رہنما ہیں جن کی متنازع شخصیت اور وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے باوجود پارٹی میں ایک مضبوط اور مستحکم پوزیشن ہے۔ ری پبلکن کے متعدد سینیٹرز پہلے ہی کہہ چکے ہین کہ ٹرمپ کو گواہی کے لیے سینیٹ میں پیش کرنے کا خیال درست نہیں ہے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے امریکی سینیٹ میں مواخذے کے ٹرائل کی سماعت کے لیے ڈیموکریٹس کی جانب سے آئندہ ہفتے گواہی کے لیے انہیں پیش کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اس دعوت کو ’پبلک ریلیشن سٹنٹ‘ قرار دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا اور بیشتر ری پبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سینیٹ کو اس ٹرائل کی سماعت کا اختیار ہی نہیں ہے کیونکہ ٹرمپ پہلے ہی صدارت کا عہدہ چھوڑ چکے ہیں اور انہیں صدارت سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔
اس طرح کی دلیل سے سینیٹ کی نصف نشستیں رکھنے والے ری پبلکن ارکان براہ راست ٹرمپ کے تبصروں کی حمایت کرنے کے بجائے قانونی خدشات کی بنا پر ان کو سزا دینے کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔
100 رکنی سینیٹ کی دوتہائی اکثریت کو ٹرمپ کو مجرم قرار دینے کے الزام کی حمایت کرنا ہوگی جس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ کو سزا کے لیے کم از کم 17 ری پبلکنز کو بھی 50 ڈیموکریٹس کی حمایت کرنے کی ضرورت ہوگی۔
دوسری جانب ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس نے ٹرمپ پر اپنے حامیوں کو بغاوت پر اکسانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اپنی انتخابی شکست کے خلاف اپنے حامیوں کو لڑائی کے لیے اکسایا جس کے بعد چھ جنوری کو ان کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی ایوان کی تاریخی عمارت پر حملے میں ٹرمپ کے حامیوں نے نہ صرف کیپیٹل ہل کے تقدس کو پامال کیا بلکہ قانون سازوں کو اپنی سلامتی کی خاطر چیمبر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس دن پانچ افراد مارے گئے جن میں کیپٹل پولیس کے ایک اہلکار بھی شامل تھے۔
ڈیموکریٹک ارکان نے اس ’بغاوت‘ کو 1860 کی خانہ جنگی کے بعد امریکی جمہوریت پر سب سے خطرناک حملہ قرار دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اب صدارت سے تو نہیں ہٹایا جا سکتا تو مواخذے کی سماعت کے حوالے سے ڈیموکریٹس کا ایک اہم مقصد یہ ہوگا کہ ٹرمپ کو مستقبل میں دوبارہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے یا وفاقی عہدے پر فائز ہونے کے لیے نااہل قرار دے دیا جائے۔
ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے اصرار کیا ہے کہ مقدمے کی سماعت چلنی چاہیے اور یہ کہ انہیں سزا سنانے میں ناکامی سے امریکی جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔
پیلوسی نے جمعرات کو نامہ نگاروں کو بتایا: ’ہم دیکھیں گے کہ یہ سینیٹ بہادروں کا ایوان ہے یا بزدلوں کا۔‘