افغانستان کی جنگ سے متعلق اپنے پہلے بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پینٹاگون کو بتایا کہ انہیں یکم مئی تک امریکی فوجیوں کے ملک سے انخلا کے لیے ڈیڈ لائن کی پروا نہیں ہے۔
طالبان کے ساتھ قطر امن معاہدے میں ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ عہد کیا تھا کہ اگر تمام شرائط کو پورا کیا گیا تو تمام غیر ملکی افواج یکم مئی 2021 تک افغانستان چھوڑ دیں گی۔
صدر بائیڈن، جو نائب صدر کاملہ ہیرس کے ساتھ پینٹاگون گئے تھے، نے کہا کہ وہ یکم مئی کی آخری تاریخ کے معاہدے کو توڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا طالبان امن معاہدے کی شرائط پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ سفارت کاری ان کے لیے خارجہ حکمرانی کا ایک اہم ذریعہ ہوگی۔
’واشنگٹن ٹائمز‘ کے مطابق بائیڈن نے کہا کہ وہ امریکی عوام کے اہم مفادات کے دفاع کے لیے طاقت کا استعمال کرنے سے کبھی نہیں ہچکچائیں گے لیکن صرف اس صورت میں جب ضرورت ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا، ’مجھے یقین ہے کہ طاقت کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے پہلا نہیں۔ وزارت دفاع کا مرکزی مشن ہمارے دشمنوں کے حملوں کو قابو میں رکھنا ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن کے ساتھ مل کر خطے میں امریکی نامکمل جنگوں کے خاتمے کے لیے ’ذمہ داری سے‘ کام کریں گے۔
امریکہ قطر امن معاہدے پر نظرثانی کر رہا ہے، جس پر افغانستان کے لیے امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد اور طالبان کے نائب ملا عبدالغنی برادر کے درمیان 29 فروری 2020 میں دستخط ہوئے تھے۔
اسی کے ساتھ طالبان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اشرف غنی کی زیرقیادت افغان حکومت کا تختہ الٹنے اور طالبان رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی سربراہی میں ’اسلامی ریاست‘ کے قیام کے خواہاں ہیں۔
اس گروپ نے ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کو افغانستان کا ’قانونی حکمران‘ قرار دیا ہے۔
قطر معاہدے کے تحت طے کی جانے والی دیگر ڈیڈلائنز بھی گذشتہ برس مختلف وجوہات کی بنا پر پوری نہیں ہوسکی تھیں۔