عالمی فوجداری عدالت نے گذشتہ دنوں ایک تاریخی رولنگ دی جس میں قرار پایا کہ ’مقبوضہ فلسطینی علاقے بشمول غرب اردن، غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشیلم عدالت کے دائرہ سماعت میں آتے ہیں۔‘
اس فیصلے کے بعد غزہ پر 2014 کے اسرائیلی حملے اور پھر 2018 کے دوران غزہ۔اسرائیل سرحد پر’گریٹ ریٹرن مارچ’ میں شریک سینکڑوں سویلین فلسطینی مظاہرین کی غیر قانونی ہلاکتوں کی شکل میں سرزد ہونے والے اسرائیلی جنگی جرائم کی تفتیش کی راہ ہموار ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی غیر قانونی یہودی بستیوں سے متعلق تحقیقات کا اونٹ بھی شاید اب کسی کروٹ بیٹھ سکے گا؟
آئی سی سی کی رولنگ کے تحت ہونے والی تحقیقات اگر کسی منطقی انجام کو پہنچتی ہیں تو یہ فوج، سرکردہ سیاسی اور اسرائیلی سکیورٹی سے متعلق حکام کے لیے تباہ کن امر ثابت ہو گا۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں اپنے غیرقانونی اقدامات اور پالیسیوں کی وجہ سے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اسرائیل کو قابل مؤاخذہ ثابت کرنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آئی سی سی جنگی جرائم کے مشتبہ ملزموں کے اگر وارنٹ گرفتاری جاری کرتی ہے تو جن ملکوں نے عدالت کے قیام کی معاہدے توثیق کر رکھی ہے انہیں اپنی سرزمین پر اسرائیلی حکام کو گرفتار کرنے کا مکمل اختیار مل جائے گا۔
کیا عدالتی رولنگ اسرائیل کو اپنے مظالم سے روک سکے گی؟ کیا اسرائیلی قیادت واقعی اس سے خوفزدہ ہے؟ یقینا ایسا ہے کیونکہ اب اسرائیل کی سیاسی اور فوجی قیادت آسانی سے ان ملکوں میں سفر نہیں کر سکتی جہاں ان کی گرفتاری کا خدشہ ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کا فیصلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے بطن سے جنم لیا۔ یہ رولنگ فلسطینی اتھارٹی کی درخواست پر جاری ہوئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف سے اسرائیل کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
فلسطینی اتھارٹی نے آئی سی سی کی تاسیس سے متعلق معاہدہ روم پر 2014 میں دستخط کیے تھے اور اس طرح یکم اپریل 2015 کو فلسطین اس معاہدے کی توثیق کرنے والا 123واں رکن ملک بنا۔ اسرائیل نے اس قانون کی آج تک توثیق نہیں کی۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں آئی سی سی اس وقت دباؤ میں آئی جب عدالت کی چیف پراسیکیوٹر فتاؤ بینسوڈا سمیت اعلی عدالتی حکام پر پابندیاں لگائی گئیں۔ دسمبر 2019 میں فتاؤ بینسوڈا نے ایک بیان میں کہا تھا ’کہ فلسطین میں ممکنہ جنگی جرائم سے متعلق مکمل تفتیش شروع کرنے کے لیےکافی شواہد موجود ہیں۔‘ فلسطینی حکام سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ایوان اقتدار سے رخصتی کے بعد عدالت کا راستہ ہموار ہوا جس کے بعد امریکی مخالفت کے باوجود حالیہ رولنگ سامنے آئی۔
بدعنوانی کے الزامات میں اپنے ہی ملک میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جھٹ پٹ آئی سی سی کے فیصلے کو ’خالص یہود مخالف‘ رولنگ قرار دے دیا۔ ان کے بقول اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات ’فیک نیوز‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اور کوئی عدالت کسی ’فیک نیوز‘ کی تحقیق پر اپنا وقت کیوں ضائع کرے گی؟
اسرائیل، متعدد مغربی ملک اور آئی سی سی کی حالیہ رولنگ پر اختلافی نوٹ لکھنے والے ایک جج بھی یہ سمجھتے ہیں ’کہ فلسطین خودمختار ریاست نہیں، اس لیے آئی سی سی کو وہاں سماعت کا اختیار نہیں ہے۔‘ کرونا سے بچاؤ کے لیے جب فلسطینیوں کو اسرائیلی ویکسی نیشن مہم میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو صہیونی قیادت ٹکے سا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے ’کہ فلسطینیوں کی ویکسی نیشن کے ذمہ دار فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس ہیں، اسرائیل نہیں۔‘ نیرنگی دوراں دیکھیے کہ آئی سی سی کی رولنگ کی تشریح کے وقت فلسطین، خود مختار ریاست کا درجہ کھو دیتا ہے جبکہ صحت کی سہولیات فراہمی کے وقت اسے خودمختار ملک تسلیم کر کے ابو مازن کے پلے باندھ دیا جاتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے ایسے تمام بودے دلائل اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔
آئی سی سی کی رولنگ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے گذشتہ چار سالہ دور اقتدار میں کیے جانے والے تمام یکطرفہ فیصلوں پر بھی خط تنسیخ پھیر دیا ہے۔ ان فیصلوں میں یروشیلم کو اسرائیل کا دارلحکومت اور غرب اردن کے بعض علاقوں کا صہیونی ریاست میں ادغام شامل ہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہرین رولنگ کی تشریح کرتے ہوئے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آئی سی سی نے ایک ہی آن میں بڑے موثر انداز میں 1967 کی حدود میں’فلسطینی ریاست‘بھی تسلیم کرلی۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق نیتن یاہو کی ہدایت پر وزارت خارجہ نے دنیا بھر میں اپنے سفارت کاروں سے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی حکومتوں پر بین الاقوامی تحقیقات کی مخالفت کے لیے دباؤ ڈالیں۔ تحقیقات شروع ہونے کی صورت میں اسرائیل انہیں رکوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا۔ آئی سی سی کے حکام کو مقبوضہ علاقوں میں آنے سے روکے گا، تاہم اس کے باوجود فلسطینیوں کے دعوی کو سچ ثابت کرنے کے لیے ڈھیروں ویڈیوز، شہادتیں، انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹیں اور دستاویزات کافی ہوں گی۔
ریٹائرڈ اسرائیلی فوجیوں کی ’بریکنگ دا سائلینس‘ نامی تنظیم اسرائیلی فوج کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کو ’انگیج‘ کرنے سے متعلق متنازع طریقہ کار پر گواہی دینے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ یہ کارروائی سالوں نہیں بلکہ اگر مہینوں بھی چلتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسرائیل پر آنے والا دباؤ گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔
چیف پراسیکیوٹر فتاؤ بینسوڈا کی جانب سے اسرائیلی جنگی جرائم سے متعلق باقاعدہ کارروائی شروع ہونے کے 30 دن کے اندر اسرائیل جواب داخل کرانے کا پابند ہے۔ یاد رہے کہ فتاؤ بینسوڈا کی عدالت کے ساتھ ملازمت کی ٹرم امسال جون میں ختم ہو رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں آئی سی سی کے استغاثہ کو غیر معمولی دباؤ لا کر انہیں اپنا فیصلہ ملتوی کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نتائج سے بے پروا ہو دیکھا جائے تو عالمی عدالت انصاف کی گذشتہ ہفتے سامنے آنے والی رولنگ فلسطینیوں کے ایک بڑی کامیابی ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضے اور وہاں غیر قانونی یہودی بستیاں تعمیر کر کے عالمی ادارے کی درجنوں قراردادوں کو پیروں تلے روندا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ فلسطینیوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں، مکانات مسماری، زمین ہتھیانے اور شہریوں کی غیرقانونی طور پر بے دخلی ایسی لاتعداد کارروائیوں پر بھی کسی کو اسرائیل سے جواب طلبی کی جرات نہ ہوئی۔ درحقیقت کانگریس میں دونوں جماعتوں اور یکے بعد دیگرے آنے والی امریکی حکومتوں کی اندھی حمایت کی وجہ سے اسرائیل آج تک مؤاخذے سے بچتا چلا آیا ہے۔
اس وقت بھی اسرائیلی پروپیگنڈا مشین زور وشور سے دنیا کو یہ باور کرانے میں لگی ہوئی ہے کہ آئی سی سی کو اسرائیلی جنگی جرائم سے متعلق تحقیقات سے اجتناب کرنا چاہے۔ عدالت نے اپنا دائرہ اختیار مقبوضہ علاقوں تک متعین کیا ہے۔ تحقیقات وہاں سرگرم مزاحمتی تحریکوں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] اور اسلامی جہاد سے کی جانی چاہیں۔ دوسری جانب استغاثہ بھی چاہتا ہے کہ ان تنظیموں کے مبینہ جنگی جرائم سے متعلق تحقیقات ہونی چاہیں کیونکہ ان پر بھی ’نہتے‘ اسرائیلی شہریوں کو راکٹ اور مارٹر گولوں سے نشانہ بنانے کا الزام ہے۔
یادش بخیر! بہت سے ملک ان تنظیموں کو پہلے ہی ’دہشت گرد‘ قرار دے چکے ہیں۔ ان کی قیادت آئی سی سی کی رولنگ کو اپنے لیے اسرائیلی بموں اور دیتھ سکواڈ سے بڑا خطرا نہیں سمجھتی۔ تاہم فلسطین سے باہر ان تنظیموں کی قیادت کے لیے قبولیت کا درجہ کم ہو سکتا ہے کیونکہ میزبان ملکوں کے لیے عدالتی سماعت کے دوران اپنا دست تعاون دراز رکھنا شاید ممکن نہ رہ سکے۔
عدالت کے لیے پہلے مرحلے پر تو اسرائیل۔فلسطین کشیدگی کا معاملہ طے کرنا بڑا امتحان ہے۔ اگر وہ اسرائیل ایسی بڑی طاقت کو نکیل ڈالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر دوسرے مقامات پر ایسی ہی خلاف ورزیوں کا شکار بننے والے عالمی عدالت سے کسی انصاف کی امید لگا سکتے ہیں۔ عالمی عدالت افغانستان میں امریکی فوج اور سی آئی اے کے کردار سے متعلق تحقیقات اسی وقت کر سکتی ہے جب وہ فلسطین۔اسرائیل تنازع میں مظلوموں کو انصاف دلا سکے اس کے بعد غیر افریقی ملکوں کی قیادت کی سرکوبی اس کا بڑا امتحان ہو گی، تاہم اب تک آئی سی سی کی ’نظر التفات‘ زیادہ تر افریقی ملکوں پر رہی ہے۔
ین الاقوامی فوجداری عدالت کی رولنگ کو درست سمت میں آگے بڑھایا گیا تو اس سے قیام امن کی کوششوں کے فروغ میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ کا رویہ آنے والے دنوں میں ظاہر ہو جائے گا۔ امریکا معاہدہ روم پر دستخط سے انکاری رہا ہے۔ بدنام زمانہ ٹرمپ انتظامیہ نے آئی سی سی حکام پر پابندیاں لگائیں۔ نئی امریکی انتظامیہ نے ابھی ان فیصلوں کو واپس نہیں لیا، تاہم اس پر نظرثانی جاری ہے۔ اگرچہ امریکا آئی سی سی کی رولنگ کا مخالف ہے، تاہم وہ اس فیصلے کو مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے جواز کے طور پر استعمال کر سکتا ہے اور بائیڈن یہی اعلان کر کے امریکی وائٹ ہاؤس کے مکین بنے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔