فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے لیے بھیجی جانے والے کرونا (کورونا) وائرس کی دو ہزار خوراکوں کو روک لیا ہے۔
یہ دونوں اطراف کے درمیان کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ویکسین تک رسائی پر ہونے والے تنازعے کی تازہ ترین کڑی ہے۔
فلسطینی وزیر صحت مائی الکیلا کا سوموار کو کہنا تھا کہ اسرائیل ’اس بات کا مکمل طور پر ذمہ دار ہے‘ کہ اس نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے روس کی سپتنک وی ویکیسن کی دو ہزار خوراکوں کو غزہ پہنچنے سے روک دیا ہے۔ ویکسین کی یہ خوراکیں غزہ کی محصور پٹی میں موجود طبی عملے کے اراکین کے لیے بھیجی جا رہی تھیں۔
اسرائیلی حکام نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ابھی تک سپتنک وی کی محض ایک ہزار خوارکوں کی منتقل کے لیے دی جانے والی درخواست پر فیصلہ نہیں کیا۔
اسرائیل کی امور خارجہ اور دفاع کی کمیٹیوں نے ویکسین منتقلی کی پالیسی پر سوموار کو بات چیت کی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس میٹنگ میں یہ بھی زیر غور رہا کہ کیا اس منتقلی کو غزہ میں موجود دو اسرائیلی شہریوں اور دو اسرائیلی فوجیوں کے باقیات کی واپسی کے ساتھ جوڑا جائے جن کے بارے میں مانا جا رہا ہے کہ وہ مسلح گروہ حماس کے پاس ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کمیٹی میں گفتگو کے دوران چئیرمین زوی ہوسر نے تشویش کا اظہار کیا کہ یہ ویکسین طبی عملے کے بجائے حماس کے پاس جا سکتی ہے۔
مغربی کنارے پر حکومت کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حصے کی ویکسین کو غزہ کے ساتھ بھی بانٹے گی جہاں اسلامی جنگجو گروپ حماس نے سال 2007 میں اس کی فورسز سے اقتدار چھین لیا تھا۔
غزہ میں 20لاکھ سے زائد فلسطینی مقیم ہیں اور اسے ابھی تک ویکسین کو کوئی خوراک نہیں ملی۔ غزہ کے حکام کے مطابق پٹی میں وبا کے آغاز سے اب تک 53 ہزار سے زائد کیسز اور 530 اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ایک اسرائیلی عہدیدار نے خبر رساں ادارے اسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اسرائیل کو سپتنک وی کی ایک ہزار خوراکوں کی غزہ منتقلی کی درخواست موصول ہوئی ہے اور اسی حوالے سے سوموار کو بات چیت بھی ہوئی ہے۔
لندن میں اسرائیلی سفارت خانے نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’اسرائیلی حکام سے رابطے کے بغیر فلسطینی اتھارٹی کے نمائندے راملہ کے پاس بیتونیہ کراسنگ پوائنٹ پر پہنچ گئے۔ انہوں نے روس سے ملنے والی سپتنک ویکسین کی ایک ہزار خوراکیں اٹھا رکھی تھیں اور وہ انہیں غزہ بھیجنا چاہتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل سفارت خانے کا مزید کہنا تھا: ’وبا کسی سرحد کو نہیں مانتی اور اسرائیلی حکام فلسطینی وزارت صحت کے ساتھ مل کر اس وبا سے لڑنے کے لیے پر عزم ہیں۔ موجودہ صورت حال کے تناظر میں ویکسین کے معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا فائدہ مند نہیں ہے۔‘
حالیہ تنازع ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کی اس حوالے سے تنقید بڑھتی جا رہی ہے کہ اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں ویکسینیشن مہم کے درمیان بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ اسرائیل نے دنیا بھر میں کامیاب ترین ویکسینیش مہم چلا رکھی ہے جس میں وہ اپنی 93 لاکھ آبادی کے ایک تہائی سے زائد حصے کو دسمبر سے ویکسین لگا چکا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ چوتھے جینیوا کنونشن کے تحت بطور قابض طاقت اسرائیل پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ویکسین لگائے۔
اسرائیل ایسی کسی ذمہ داری کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی ترجیح صرف اس کے اپنے شہری ہیں اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں مقیم فلسیطینوں کو ویکسین دے چکا ہے کیونکہ وہ یہاں رہائش پذیر ہیں۔
اسرائیل رواں ماہ کے آغاز پر فلسطینی اتھارٹی کو موڈرنا ویکسین کی دو ہزار خوراکیں فراہم کر چکا ہے جس نے اس کو طبی عملے کو ویکسین لگانے کا عمل شروع کرنے کا موقع ملا۔
فلسطینی اتھارٹی کے مطابق اس نے آزادانہ طور پر سپتنک وی کی دس ہزار خوارکیں بھی حاصل کیں ہیں، لیکن اسے یہ خوارکیں غزہ منتقل کرنے کے لیے اسرائیل کی اجازت درکار ہو گی۔ غزہ کا علاقہ حماس کے سال 2007 میں بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے اسرائیل اور مصر کے محاصرے میں ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سوموار کو خارجہ اور دفاعی کمیٹیوں کے اجلاس کے دوران ویکسین کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کے اہلکار روئی بن یامینی نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت اسرائیل کی اپنی حاصل کردہ ویکسین کو غزہ کے ساتھ بانٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو دوسرے فریقین سے فلسطینی اتھارٹی کی حاصل کردہ ویکسین کی غزہ منتقلی کی درخواست موصول ہونے کا انتظار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے جلد فیصلہ ہونے کی توقع ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں اس وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
غزہ کے محاصرے نے اس کے صحت کے نظام کو مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آج وہاں 50 فیصد ضروری ادویات موجود نہیں ہیں، جن میں آنکولوجی، دل کی ادویات اور انتہائی نگہداشت یونٹ کے ماسک اور انٹیوبیشن ٹیوبز شامل ہیں۔
دسمبر میں غزہ کے محکمہ صحت کے حکام نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا تھا کہ وہ کرونا وائرس کی ٹیسٹ کٹس کی کمی کا شکار ہیں، آکسیجن کی سپلائی بھی کم ہے اور انتہائی نگہداشت یونٹس مکمل طور پر بھر چکے ہیں۔
یونیورسٹی آف باتھ کی رواں ماہ شائع ہونے والی نئی رپورٹ کے مطابق جاری محاصرے کے باعث وبا پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ’بنیادی طور پر بدترین‘ حالات کا سامنا ہے اور رپورٹ کے مطابق یہ محاصرہ یہاں موجود انسانوں کی حالت کو مزید خراب کرنے میں ’بڑا کردار‘ ادا کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مصنفین نےعالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس محاصرے کے خاتمے کا مطالبہ کرے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ معاشی بحران، تباہ حال نظام صحت، بجلی اور پانی کی کمی کے باعث غزہ اس وبا سے مقابلے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غزہ سماجی فاصلے اور قرنطینہ جیسے اہم حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں کر پایا۔
کلیدی ری سرچر اور یورپین یونیورسٹی آف فلورنس میں پارٹ ٹائم پروفیسر ڈاکٹر کیٹلن پروکٹر کا کہنا ہے کہ کم لوگ ہی لاک ڈاؤن پر عمل کر سکتے ہیں جب اس کا مطلب اپنی محدود آمدن کو کھونا ہو۔
ان کا کہنا تھا: ’کئی لوگ صحت کے مختلف مسائل کا علاج کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، کیونکہ انہیں کووڈ سے متاثر ہونے اور بیمار ہونے کی صورت میں آمدن میں سے محرومی کا ڈر ہے۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر طبی عملہ بھی کووڈ کے مریضوں کا علاج کرنے سے ہچکچاتا ہے اور علامات رکھنے والے کئی افراد ٹیسٹ کروانے نہیں جاتے۔‘
© The Independent