خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے63 میں 19 فروری کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے غیر سرکاری اور غیرحتمی نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار اختیار ولی نے چار ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار میاں محمد عمر کو شکست دے دی۔
یہ سیٹ پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی رکن اسمبلی میاں جمشید الدین کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور کے ریٹرننگ افسر کے دفتر میں موصول ہونے والے 102 پولنگ سٹیشنز کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے امیدوار اختیار علی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے۔
غیر سرکاری، غیر حتمی نتائج کے مطابق اختیار ولی 21 ہزار 208 ووٹ لے کر پہلے اور پی ٹی آئی کے میاں محمد عمر 17 ہزار 97 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے جبکہ تیسرے نمبر پر چار ہزار 270 ووٹوں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار میاں وجاہت رہے۔
انتخابات سے قبل یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتیں شاید اتحاد کرکے پی ٹی آئی کے امیدوار کے مدمقابل ایک ہو جائیں اور اگرچہ پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن پھر بھی عوامی نیشنل پارٹی نے اپنا امیدوار کھڑا کیا۔
اسی حلقے سے عوامی نیشنل پارٹی کے میاں وجاہت اللہ، پی ٹی آئی کے میاں محمد عمر جو سابق صوبائی اسمبلی کے رکن میاں جمشید الدین کے بیٹے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ ن کے اختیار ولی ایک دوسرے کے مد مقابل تھے۔
تاہم کانٹے کا مقابلہ پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ن کےامیدواروں کے مابین پہلے سے متوقع تھا۔ اسی حلقے سے 2013 اور 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے جب کہ مسلم لیگ کے موجودہ امیدوار اختیار ولی 2018 کے انتخابات میں دوسرے نمبر پر تھے۔
2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے میاں جمشید الدین 24 ہزار 760 ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے، جبکہ اختیار ولی نے 13 ہزار 60 ووٹ حاصل کیے تھے۔
2018 کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی نے نو ہزار 372 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار پانچ ہزار 684 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر تھے، لیکن اب ضمنی انتخابات میں پی پی پی نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا اور انھوں نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی ایک پریس کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اس حلقے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق کل ایک لاکھ 41 ہزار 934 ووٹ رجسٹرڈ ہیں جبکہ ضمنی انتخابات کے لیے 102 پولنگ سٹیشن بنائے گئے تھے۔
حلقے میں پی ٹی آئی کے مابین اختلافات
اس حلقے میں ضمنی انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر اور سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا تعلق اسی ضلع سے ہے اور وہ اس حلقے میں کافی اثر رسوخ رکھتے ہیں، تاہم جب میاں جمشید الدین کے انتقال کے بعد پارٹی نے ٹکٹ ان کے بیٹے کو دے دیا تو پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک جو موجودہ رکن صوبائی اسمبلی بھی ہیں، نے اسی حلقے سے اپنے بیٹے احد خٹک کو انتخابات میں حصہ دلوانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن ان کو پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا تھا۔
ضمی انتخابات کے لیے انتخابی مہم کے دوران پرویز خٹک جلسوں میں شرکت کرتے تھے اور موجودہ امیدوار میاں محمد عمر کے لیے مہم چلاتے تھے تاہم لیاقت خٹک پرویز خٹک کے جلسوں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح پرویز خٹک نے انتخابی مہم کے دوران ایک تقریر میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’ان کے لائے ہوئے لوگ اب ان کے خلاف ہوگئے ہیں۔ میں ان سب کو جانتا ہوں کہ کون پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور کون نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مبصرین سمجھتے ہیں کہ نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست پرویز خٹک اور ان کے بھائی کے مابین اختلافات کا نتیجہ ہے۔ عرفان خان پشاور کے روزنامہ مشرق سے وابستہ ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے پارلیمانی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کو نقصان پہنچا ہے۔‘
بقول عرفان:’اندرونی اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کی صوبے میں آٹھ سال حکمرانی کے بعد سابق وزیراعلیٰ کے اپنے حلقے میں ان کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔‘
عرفان نے بتایا کہ اس انتخابات میں ایک بات یہ بھی سامنے آگئی کہ پی ٹی آئی کو ہمدردی کا ووٹ بھی نہیں ملا کیوں کہ عمومی طور پر جب کسی رکن اسمبلی کا انتقال ہو جائے تو ان کا کوئی رشتے دار یا پارٹی امیدوار جب کھڑا ہوتا ہے تو ان کو ہمدردی کا ووٹ ملتا ہے اور زیادہ تر کیسز میں وہی جیت جاتا ہے، جس طرح عوامی نیشنل پارٹی کے سابق رکن اسمبلی ہارون بلور کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ ثمر بلور کو ہمدردی کا ووٹ ملا تھا۔
دوسری جانب پشاور کے سینئیر پارلیمانی صحافی عزیز بونیری سمجھتے ہیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا اتحاد بھی پی ٹی آئی شکست کی ایک وجہ ہے کیونکہ ایک جانب اگر عوامی نیشنل پارٹی نے امیدوار کھڑا بھی کیا لیکن دوسری جانب پی ڈی ایم میں بہت سی جماعتیں جیسے جمعیت علمائے اسلام اور پی پی پی نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔
بونیری نے بتایا: ’2008 میں اس حلقے سے پی پی پی کے امیدار جیت گئے تھے جبکہ 2008 سے پہلے یہ سیٹ اے این پی جیتی تھی تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اس حلقے میں ووٹ بینک موجود ہے۔‘
کیا انتخابات شفاف تھے؟
عرفان نے بتایا کہ ان کو جتنے بھی نتائج موصول ہوئے ہیں وہ پولنگ سٹیشن سے موصول ہوئے ہیں جبکہ اس سے پہلے انتخابات میں پولنگ سٹیشن سے انتخابی نتائج ملنا مشکل تھا جب کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ اس ضمنی انتخابات میں سکیورٹی فورسز کے جوان پولنگ سٹیشن کے باہر سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے جب کہ اس سے پہلے انتخابات میں زیادہ تر ان کو پولنگ سٹیشن کے اندر تعینات کیا گیا تھا۔