پاکستان میں جہاں روایتی ’ٹرک آرٹ‘ کنکریٹ کی سرمئی سڑکوں پہ گہرے تیز رنگ بکھیرتا ہے، وہیں ایک منفرد مگر آرٹ کی غیر مقبول صنف یعنی ’’بوٹ آرٹ‘ یا کشتی پہ فن مصوری ہے جو سندھ کے ساحلوں پر نظر آتا ہے۔
یہ فن بحیرہ عرب میں تیرتی کشتیوں کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔
پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ کے مطابق صوبہ سندھ کی 350 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی پر سمندر کی موجوں پر تیرنے والی 15 ہزار ماہی گیر کشتیوں کی اکثریت خوبصورت رنگوں سے مزین ہے، مگر اس مقامی فن کو تاحال آرٹ کی ایک منفرد صنف کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
اگرچہ اس بات کا تعین مشکل ہے کہ ان کشتیوں کو پھولوں اور سمندری حیات سے مزین کرنے کی یہ روایت کب شروع ہوئی، تاہم کراچی کے بوٹ آرٹسٹ کہتے ہیں کہ اس کی شروعات شہر کے ضلع کورنگی میں واقع ماہی گیروں کی بستی ابراہیم حیدری سے ہوئی تھی۔
یہاں پر کشتیاں رنگوں سے سجانے کے ماہر عبدالعزیز ہیں جن کو اس فن کے اولین لوگوں میں شمار کرتے ہوئے ’استاد عزیز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ استاد عزیز 50 سال سے کشتیوں پر رنگوں کی گل کاری کر رہے ہیں۔
میں نے فن کی داد دی تو استاد عزیز اپنے مخصوص لہجےمیں کہنے لگے ’ہمارا والد صاحب جو تھا وہ بھی پینٹر تھا، اور ہم 12 سال کی عمر سے پینٹنگ کا کام سیکھا ہوا ہوں، یہ کام کرتے 50 سال ہوگئے ہیں، اب بھی یہی پینٹنگ کرتا ہوں‘۔
اگرچہ استاد عزیز کے پاس کام لانے والے اکثر ماہی گیر ان رنگوں اور نقش و نگار کا کام استاد کے ذوق پر چھوڑ دیتے ہیں، لیکن بعض فرمائش بھی کرتے ہیں۔
’ایسے آدمی ہوتے ہیں جو فرمائش بھی کرتے ہیں کہ ادھر ہم کو مچھلی بناکر دو، جھینگا بناکر دو، یا پرندہ بنا کر دو۔ جیسے یہ مچھلی بنی ہوئی ہے‘
استاد عزیز نے کہتے ہوئے ایک کشتی پہ بنی مچھلی کی طرف اشارہ کیا، پھر کہنے لگے ’ماہی گیر کا اپنا پسند ہوتا ہے، وہ تصویر دیتے ہیں کہ ہمیں یہ ڈیزائن بنوانا ہے، کیوں کہ ان کو شوق ہوتا ہے کشتی پر رنگائی کا‘۔
استاد عزیز نے یہ فن اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے اسے اپنے بیٹوں اور شاگردوں کو بھی سکھایا ہے۔ ان کے چھ سات شاگرد ہیں باقی 15 کے قریب وہ ہیں جو استاد عزیز کے ساتھ ہی کشتیوں پر رنگائی کا کام سنبھالتے ہیں۔
شعیب علی ایک مصور اور استاد عزیز کے خاص شاگردوں میں سے ہیں۔ انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’سب سے پہلے فشنگ بوٹ کی پینٹنگ کی ایجاد ابراہیم حیدری سے ہوئی۔ بعد میں پھر دوسرے لوگوں نے بنائی۔ پورے پاکستان میں سب سے اچھی پینٹنگ ابراہیم حیدری کی ہوتی ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اس پینٹنگ کا خاص اور لازمی جز اس کا رومال ہے جو پرانا کلچر ہے۔ اگرچہ اس کی بنیادی ساخت کو کبھی نہیں بدلا گیا، مگر اس کو مزید اچھا کرنے کی کوشش کی گئی۔ رومال ان کشتیوں کی پہچان ہے۔
شعیب علی کہتے ہیں’جب یہاں کی کشتی کھلے سمندر یا دریاؤں میں جاتی ہے تو وہاں کے لوگ دور سے پہچان لیتے ہیں کہ ابراہیم حیدری کی کشتی ہے۔ تو پہچان کی وجہ یہ رومال والی پینٹنگ ہے‘۔
فلم میکر، فنکار اور آرٹسٹ شرجیل بلوچ کے مطابق ٹرک آرٹ پاکستان، بھارت اور دنیا کے دیگر حصوں میں پایا جاتا ہے، لیکن بوٹ آرٹ خالصتاً پاکستانی کلچر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی ماہی گیر کشتیاں سادہ ہیں اور ان کی لکڑی کو پانی اور موسمیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے صرف بنیادی کوٹنگ کی جاتی ہے، اس کے برعکس پاکستانی کشتیاں رنگوں سے مزین ہیں۔
شرجیل بلوچ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ٹرک آرٹ طویل عرصے سے تھا لیکن اس کی شناخت بطور آرٹ صنف کے کئی سال بعد ہوئی، اور اب یہ جہازوں پر بھی ہونے لگا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ابراہیم حیدری بہت عرصے سے میرا آنا جاتا تھا، میں ایک پینٹر بھی ہوں، ایک آرٹسٹ بھی ہوں، میں نے غور کیا کہ یہاں پر بڑے خوبصورت کلر ہیں، ڈیزائن ہیں اور پھر جب میں نے تھوڑا آس پاس دوسری کشتیوں کو دیکھا تو پتا چلا کہ باقی جگہوں پر تو ایسا نہیں ہے۔‘
شرجیل بلوچ کے مطابق ’کئی چیزیں ایسی ہیں جو بطور بوٹ آرٹ ایک الگ اور منفرد صنف کی شناخت کرتی ہیں۔ ایک تو یہ جو فلورا ہے، مختلف قسم کے پھولوں کے شکلیں آپ کو اس کے اندر ملتی ہیں، پھر اس میں مختلف قسم کے موٹیوز آپ کو ملتے ہیں، پھر آپ کو اس میں مخصوص قسم کے رنگ ملتے ہیں، جیسے مثال کے طور پر ان کا ایک خاص نشان ہے جسے یہ رومال کہتے ہیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وقت کے ساتھ مزید اس میں جدت لائی جارہی ہے کسی جگہ دائرے ملتے ہیں، کسی جگہ آنکھ بنی ہوئی ملتی ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ ٹرک آرٹ کے برعکس کشتیوں پر پینٹنگ لوگوں کی نظروں سے دور ہوتی ہے، تو یہ کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
شرجیل بلوچ کہتے ہیں کہ ماہی گیر کئی روز تک گہرے پانیوں میں مچھلیاں پکڑتے ہیں، اگر کشتی سادہ ہو تو یہ بور ہوں گے۔ جب کوئی ٹرک والا ٹرک آرٹ پر کتنا پیسا لگاتا ہے صرف اس لیے کہ اسے خود یہ اچھا لگتا ہے۔ یہ مچھیرے بھی ایک کشتی، چاہے چھوٹی ہو یا بڑی، رنگوں بھری بناتے ہیں تاکہ گہرے پانی میں یہ ان کی آنکھوں کو بھلی لگیں۔