وزیر اعظم عمران خان نے سری لنکا کو پاکستان کے سب سے بڑے رابطوں کے منصوبے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے فائدہ اٹھانے کے لیے زور دیا ہے۔
سری لنکا کے دو روزہ دورے کے دوران صنعت کاروں اور کاروباری افراد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا: ’میں چاہتا ہوں کہ سری لنکا سی پیک کی مدد سے وسط ایشیا کی ریاستوں سے جڑ جائے۔‘
پاکستان پہلے ہی سی پیک کا حصہ ہے اور خطے کے دوسرے ممالک کو بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹیو (بی آر آئی) کے تحت شروع ہونے والے پراجیکٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری یا سی پیک کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔
سی پیک اور سری لنکا
سی پیک چین اور پاکستان کے درمیان ایک دو طرفہ پراجیکٹ ہے جب کہ سری لنکا اور چین معاشی میدانوں میں ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔
چین اور سری لنکا پہلے ہی کئی معاشی و اقتصادی معاہدوں کا حصہ ہیں، جن میں سے ایک معاہدے کے تحت جنوبی سری لنکا میں واقع ہمبن ٹوٹا بندرگار ننانوے سال کے لیے چین کے پاس گروی ہے۔
چین سری لنکا کو انفرا سٹرکچر کی تعمیر کے لیے بھی بڑے بڑے قرضے دیتا رہا ہے، جن میں سے بعض مبینہ طور پر غلط طریقوں سے استعمال کے باعث ملک میں تنقید کا نشانہ بھی بنے۔
حال ہی میں وزیر اعظم پرسی مہندا راجہ پکسا کی حکومت پر شمالی سری لنکا میں بجلی کا ایک بڑا منصوبہ چینی کمپنی کو دینے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
معروف تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود سری لنکا کے اخبار کولمبو گزٹ میں چھپنے والے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ پاکستان سی پیک کے ذریعے گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں کو سری لنکا کی کولمبو اور ہمبن ٹوٹا بندرگاہوں سے جوڑنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں خطے کی معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی توقع ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں: ’تاہم اس سب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کئی سالوں پر محیط قریبی تعاون کی ضرورت ہو گی۔‘
سری لنکا کو سی پیک میں شمولیت سے فائدہ تو ہو گا لیکن اس سے جنوبی ایشیائی ملک میں چین کے خلاف ناپسندیدگی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
محقق اور تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی سی پیک میں شمولیت سے متعلق دعوت کا سری لنکا کی طرف سے جواب کا انتظار کرنا ہو گا۔
انسٹییوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) سے منسلک دوست محمد بریچ کے خیال میں کسی بھی دوسرے ترقی پذیر ملک کی طرح سری لنکا کے پاس بھی ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے کوئی زیادہ آپشنز نہیں ہیں اور سی پیک ایک اچھا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔
لیفٹننت جنرل (ر) طلعت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’یہ ذہن میں رکھیں کہ سری لنکا کی سی پیک میں شمولیت سے مراد ہے چین اور پاکستان سے قربت، جو کسی صورت بھارت پسند نہیں کر سکتا۔‘
سری لنکا سی پیک کا حصہ بنے گا؟
آئی ایس ایس آئی ہی کے محمد علی بیگ کے خیال میں اس وقت یہ کہنا کہ سری لنکا سی پیک کا حصہ بننے پر راضی ہو گا یا نہیں مشکل ہے۔
ان کے خیال میں وزیر اعظم عمران خان نے محض خواہش کا اظہار کیا ہے، اب دیکھنا ہو گا کہ یہ سب کچھ ممکن کیسے بنایا جا تا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر طلعت حسین سمجھتے ہیں کہ سری لنکا کو سی پیک کا حصہ بنانے کے لیےچین کو بھی آن بورڈ لینا ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک چین اور پاکستان کے درمیان ایک دو طرفہ پراجیکٹ ہے اور اس میں سری لنکا کے لیے کیا کشش ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود سری لنکا کے جغرافیے کو اس ملک کے لیے بڑا اثاثہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’پاکستان اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے سے سری لنکا کو خارجہ پالیسی میں معقول خود مختاری برقرار رکھنے اور معاشی مواقعے وسیع کرنے کے اضافی فائدے حاصل ہوں گے۔‘
تاہم انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سری لنکا کو دیکھنا ہو گا کہ سی پیک کا حصہ بن کر ان کے بھارت کے ساتھ تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب چین پہلے ہی سری لنکا کی معاشی طور پر کافی مدد کر رہا ہے تو سی پیک میں شامل ہو کر بھارت کو ناراض کرنے کی کیا ضرورت ہو گی۔
’سری لنکا چین کے بہت قریب تو ہے لیکن اتنا بھی قریب نہیں ہونا چاہتے کیونکہ ان کا بھارت پر انحصار بہت زیادہ ہے۔‘
لیفٹننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے مزید کہا کہ سری لنکا کے سی پیک کا حصہ بننے پر امریکہ کا ردعمل بھی آسکتا ہے تو یوں اس سے نہ صرف علاقائی بلکہ بین الاقوامی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
دوست محمد بریچ کے خیال میں سری لنکا سی پیک میں شامل ہو جائے گا اور اس کے لیے اس ملک کی اشرافیہ کوشش کرے گی کیونکہ اس عمل سے ان کے مفاد پورے ہو سکتے ہیں۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں کہا کہ ہر ملک کی اشرافیہ عام طور پر اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی ہے اور یہی کچھ یہاں بھی ہونے جا رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر طلعت مسعود کے خیال میں سری لنکا ایک بہت چھوٹا ملک ہے اور اس کی معیشت کا حجم بھی بہت بڑا نہیں ہے اس لیے اسے سی پیک میں لا کر کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سری لنکا کی وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت بھی بہت محدود ہے۔
’سی پیک لینڈ لاکڈ ممالک کے لیے مفید پراجیکٹ ہے جبکہ سری لنکا کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں درپیش۔‘
پاکستان کو کیا فائدہ؟
دوست محمد دریچ کے خیال میں پاکستان خطے کے ملکوں خصوصا بھارت کے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر اپنی اہمیت میں اضافہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
’جب نیپال میں زلزلہ آتا ہے تو پاکستان مدد کرتا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان جیو سٹریٹیجی سے جیو اکنامک کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد اب امریکہ کو بھی کہتا ہے کہ اسے جیو پولیٹیکل لینز کی بجائے جیو اکنامک چشمہ لگا کر دیکھا جائے۔
محمد علی بیگ کا کہنا تھا کہ سری لنکا کی برآمدات میں پام آئل اور کوکونٹ آئل شامل ہیں اور پاکستان میں خوردنی تیل کا مسئلہ ہر وقت رہتا ہے۔
’اس لیے سری لنکا کو سی پیک میں شامل کر کے پاکستان خوردنی تیل کے مسئلے کو کسی حد تک حل کرنے کا فائدہ ضرور حاصل کر سکتا ہے۔‘