’شیواجی مہاراج سیکیولر، نیک دل اور انسانیت کے علمبردار حکمران تھے۔ انہیں اپنے مذہب پر بے حد فخر تھا لیکن انہوں نے کبھی کسی دوسرے مذہب سے نفرت کی نہ مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ کیا۔ وہ ہر مذہب کا احترام کرتے تھے۔‘
یہ الفاظ بھارت کی ریاست مہاراشٹر کے شہر شولاپور سے تعلق رکھنے والے مسلم رہنما اور چھترپتی شیواجی مسلم بریگیڈ مہاراشٹر کے صدر عاکف احمد دفعدار کے ہیں۔
ان کی تنظیم نے گذشتہ ہفتے مراٹھا سلطنت کے بانی اور کٹر ہندو راجہ چھترپتی شیواجی مہاراج کی جینتی یا جنم دن انتہائی جوش و خروش کے ساتھ منایا۔
شولاپور میں جہاں چھترپتی شیواجی مسلم بریگیڈ سے وابستہ مرد اور خواتین نے سڑکوں پر نکل کر شیواجی کا جنم دن منایا، وہیں مہاراشٹر کے دوسرے شہروں ممبئی، عثمان آباد، تلجاپور اور سانگلی میں بھی مسلمانوں نے ان تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
عاکف احمد دفعدار نے انڈپینڈنٹ اردو سے تفصیلی گفتگو میں کہا کہ بھارت میں تین شہنشاہ، اورنگزیب، شیواجی مہاراج اور ٹیپو سلطان، کے نام سیاست اور مسلمانوں سے نفرت کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن ہماری کوشش ہے کہ حقیقی تاریخ کو پیش کیا جائے۔
’مہاراشٹر میں 90 فیصد سے زیادہ لوگ شیواجی مہاراج کو دیو کی طرح پوجتے ہیں۔ ہمارے یعنی مسلمانوں کے آبا و اجداد نے ان کے ساتھ رہ کر بہت بڑے کارنامے انجام دیے ہیں تو پھر ہم کیوں اپنے آپ کو الگ کریں؟ ہم اپنے آپ کو الگ تھلگ کرکے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے ہاں شیواجی مہاراج کے جنم دن کو شیو جینتی کہا جاتا ہے جو ہر سال 19 فروری کو منائی جاتی ہے۔ میں یہ بات بار بار کہتا ہوں کہ جب بھی ہم کسی کا جنم دن یا جینتی منائیں تو یہ لحاظ ضرور رکھیں کہ بحیثیت مسلمان ہم نے شرعی تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ ایسا نہیں لگنا چاہیے کہ ہم نے ذہنی غلامی قبول کی ہے۔ ہم شیواجی مہاراج کے حوالے سے پھیلائی جانے والی نفرت کو کم کرسکتے ہیں۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت شیواجی مہاراج کے بارے میں وہی سوچ رکھتی ہے جو ہندوؤں کی اکثریت مغل شہنشاہ اورنگزیب کے تئیں رکھتی ہے۔
بعض بھارتی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ چھترپتی شیواجی مہاراج نے اپنی بیشتر جنگیں مسلم حکمرانوں کے خلاف لڑیں۔ مسلم حکمرانوں کے قلعوں پر ’بھگوا پرچم‘ لہرا کر ہندوی سوراج کی بنیاد رکھی۔
تاہم عاکف دفعدار کی مانیں تو جتنی جنگیں شیواجی مہاراج نے مسلمان حکمرانوں کے خلاف لڑی ہیں اس سے زیادہ تو مغل شہنشاہ اورنگزیب نے مسلمانوں حکمرانوں کے خلاف لڑی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’بیجاپور کی عادل شاہی، احمد نگر کی نظام شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سمیت متعدد مسلم سلطنتیں تو اورنگزیب نے ختم کیں۔ شیواجی مہاراج نے جتنی جنگیں لڑی ہیں اس سے 10 گنا زیادہ تو اورنگزیب نے مسلم سلطنتوں کے خلاف لڑی ہیں۔‘
شولاپور سے تعلق رکھنے والے نوجوان مصنف، محقق و صحافی سید شاہ واعظ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسا ظاہر کیا جاتا ہے کہ شیواجی مہاراج نے جو جنگیں لڑی ہیں وہ مذہبی جنگیں تھیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ راجے، مہاراجے اور نواب صرف اپنی سلطنت اور حکومت کو پھیلانے کے لیے لڑتے تھے نہ کہ کسی مخصوص مذہب کو پھیلانے کے لیے۔
مہاراشٹر ریاست کے شہر اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن نوشاد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کے دوران ناگپور سے تعلق رکھنے والے مورخ ایم ایم دیش مکھ کی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ راجوں اور مہاراجوں کی جنگیں مذہبی نہیں سیاسی ہوا کرتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ایم ایم دیش مکھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت کے سپہ سالار افضل خان کا سیکرٹری کرشنا کلکرنی نامی برہمن ہندو تھا جبکہ شیواجی مہاراج کا وکیل قاضی حیدر نامی مسلمان تھا۔ وہ اصل میں اپنی کتاب میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ راجوں اور مہاراجوں کی یہ ایک سیاسی نہ کہ مذہبی کشمکش تھی۔‘
’تمام راجوں، مہاراجوں اور نوابوں نے سیاسی مقاصد کے حصول اور اپنی حکومتیں پھیلانے کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے تھے کہ ہمارے توپ کا گولہ مندر کو گرائے گا یا مسجد کو۔‘
عاکف دفعدار کے مطابق بعض مسلمان تاریخ دانوں نے بہت نادانیاں کی ہیں، انہوں نے اپنی کتابوں میں اورنگزیب یا کسی دوسرے مسلم راجہ کی حکومت کو اسلامی حکومت کا نام دیا ہے۔ ’یہ کر کے ان لوگوں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ ہمارے تاریخ دان طبقے نے مغلوں کی حکومت کو مسلم حکومت کا نام دیا ہے لیکن جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو یہ نہیں لکھا کہ یہ عیسائیوں کی حکومت ہے۔ ہمارے تاریخ دانوں نے یہ تک لکھا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے۔ اب جب یہی بات اکثریتی طبقے، جن کی آبادی 70 سے 80 فیصد ہے، سے کہی جاتی ہے، تو وہ طیش میں آ جاتے ہیں کہ ہمیں اتنے سال تک غلام بنا کر رکھا گیا ہے۔‘
عاکف دفعدار کا کہنا ہے کہ جب سے مہاراشٹر میں مسلمانوں نے شیواجی مہاراج کا جنم دن منانا شروع کیا ہے، تب سے ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کافی فروغ ملا ہے۔
’ہم نے بچپن میں دیکھا ہے کہ شیو جینتی کے موقع پر مہاراشٹر میں حالات بہت عجیب اور نازک نظر آتے تھے۔ مسلمانوں کے علاقوں میں پولیس کا کڑا پہرہ ہوتا تھا، لیکن آج وہ حالات کہیں بھی نظر نہیں آتے۔‘
نوشاد عثمان نے بتایا کہ شیو جینتی کی تقریبات میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر شرکت سے مقامی ہندوؤں کی مسلمانوں کے تئیں سوچ تبدیل ہونے لگی ہے۔
’شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے جب اورنگ آباد آئے تو ان کو مراٹھی ترجمہ و تفسیر والا قرآن پیش کیا گیا تو انہوں نے کھڑے ہو کر یہ اپنے ہاتھوں میں لیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ فرصت نکال کر اس کو پڑھیں گے۔ اس کے بعد شیو سینا نے اردو زبان میں کلینڈر شائع کرنے شروع کر دیے اور ہورڈنگز نصب کرنا شروع کر دیں۔‘
’تاریخ مسخ کی گئی ہے‘
عاکف احمد دفعدار کے بقول ہندوستان کی آزادی کے بعد بعض برہمنوادی فورسز، نام نہاد تاریخ نویسوں اور ریسرچ سکالرز نے شیواجی مہاراج کو مسلمانوں کا دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔ ’تاہم سماجی بریگیڈ، مراٹھا سماج سیوا سنگھ یا دوسرے انصاف پسند مراٹھا اور ہندوؤں نے ہی شیواجی مہاراج کی اصل تاریخ کو پیش کرنے کا کام کیا ہے۔ جب حقیقی تاریخ سامنے آئی تو ہندوؤں کی اکثریت سمجھ گئی اگر شیواجی انصاف پسند تھے تو کیوں ان کے نام پر نفرت پھیلائی جائے۔‘
نوشاد عثمان نے بتایا کہ بعض لوگوں نے ماضی میں کتابیں لکھ کر ہندوؤں سے کہا کہ مسلمانوں نے شیواجی مہاراج کے بیٹے سمجھاجی کو اس لیے قتل کیا کیونکہ اس نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا تھا جو کہ حقیقت سے بعید ہے۔
’بعد ازاں ترقی پسند تحریک سے متاثر افراد جیسے کامریڈ شرد پاٹل اور کامریڈ گووند پانسرے، شیواجی مہاراج سے متعلق حقیقت کو سامنے لائے۔ اس کے بعد مراٹھا سیوا سنگھ نے حقیقت پیش کرنے کی تحریک چلائی ہے۔‘
شیواجی مہاراج اور مسلمان
مصنف و صحافی سید شاہ واعظ کے مطابق دائیں بازو کے تاریخ نویسوں نے شیواجی مہاراج کو ایسے پیش کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف تھے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ان کے حکومتی نظام کا حصہ تھے، فوج میں مسلمان بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔
’شیواجی کے دادا مالوجی بھونسلے کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے ایک بار احمد نگر کے مسلم صوفی سنت حضرت شاہ شریف کے سامنے منت مانگی کہ اگر میرے ہاں بیٹے پیدا ہوئے تو میں ان کا نام آپ کے نام پر رکھوں گا۔ جب اس کی منت پوری ہوئی تو اس نے اپنے ایک بیٹے کا نام شاہ جی اور دوسرے کا نام شریف جی رکھا۔‘
عاکف احمد دفعدار نے بتایا کہ شیواجی مہاراج کے خاندان کی مسلم صوفی سنتوں سے خاص عقیدت تھی۔
’شیواجی کے دادا مالوجی بھونسلے صوفی سنت حضرت شاہ شریف کے مرید تھے۔ ان کے والد شاہ جی بھونسلے صوفی سنت حضرت شیخ محمد بابا کے مرید تھے۔ خود شیواجی مہاراج صوفی پیر حضرت یاقوت بابا کے خاص مرید تھے۔‘
’پونے میں مونی بابا نامی ایک مسلم صوفی سنت رہتے تھے۔ ان کا نام مونی اس لیا پڑا تھا کیونکہ وہ بات نہیں کرتے تھے۔ تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر جنگ سے پہلے شیواجی مہاراج دعائیں لینے کے لیے خود مونی بابا کے پاس جاتے تھے یا اپنے کسی وزیر کو بھیجتے تھے۔ ‘
نوشاد عثمان کے مطابق شیواجی مہاراج نے مہاراشٹر کے رتناگری ضلع میں ایک مسجد کے لیے زمین دی تھی جہاں آج ’شیواجی مسجد‘ کھڑی ہے۔
’شواجی مہاراج نے رتناگری ضلع میں صوفی پیر حضرت یاقوت بابا کو مسجد کی تعمیر کے لیے 653 ایکڑ زمین دی تھی۔ وہاں ایک خوبصورت مسجد کھڑی ہے۔ مقامی لوگ اس مسجد کو شیواجی مسجد کے نام سے جانتے ہیں۔‘
عاکف احمد دفعدار نے دعویٰ کیا کہ شیواجی مہاراج کی فوج میں 30 فیصد مسلمان تھے اور ان کے 11 ذاتی محافظ بھی مسلم تھے۔
’شیواجی مہاراج کے پہلے سیکریٹری اور وکیل قاضی حیدر تھے۔ ان کے گھوڑ سوار دستے کا سپہ سالار سدی بلال نامی مسلمان تھا۔ توپ خانے کا سربراہ ابراہیم خان تھا۔ ‘
انہوں نے مزیف کہا: ’شیواجی بھارتی بحریہ کے بانی ہیں۔ انہوں نے جب اپنی بحری فوج بنائی تو اس کی کمان دولت خان اور دریا سارنگ نامی مسلمانوں کو سونپی۔ ان ہی لوگوں نے بعد ازاں کئی بحری جہاز بنوائے۔‘
چھترپتی شیواجی مہاراج کون تھے؟
مصنف، محقق و صحافی سید شاہ واعظ کے مطابق شیواجی مہاراج بھونسلے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو احمدنگر کی نظام شاہی دور میں ایلورہ کے مشہور غاروں کے قریب ویرل نامی موضع میں رہا کرتا تھا۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ شیواجی مہاراج کے جد اعلیٰ کا تعلق میواڑ (راجستھان ) کے راجپوت سسودیا خاندان سے تھا۔ رفتہ رفتہ یہ خاندان سسودیا سے بھوسلے ہوگیا۔
شیواجی کی پیدائش 19 فروری 1630 کو پونہ سے 40 کلو میٹر دور قلعہ شیونیری میں ہوئی۔ ان کے والد شاہ جی راجہ عادل شاہی دربار میں اعلیٰ افسر تھے۔ شیواجی کی تعلیم و تربیت ان کی ماں جیجابائی کے زیر نگرانی عمل میں آئی۔
1647 میں 17 سال کی عمر میں چھترپتی شیواجی نے عادل شاہی کا قلعہ تورنالہ فتح کیا اور اسی طرح قلعہ کونڈانہ اور قلعہ پورندر فتح کیا اور مغربی مہاراشٹر کا ایک بڑا علاقہ ان کے قبضے میں آ گیا اور اسی سال انہوں نے سوراجیہ قائم کرنے کا عہد کیا۔
سید شاہ واعظ کے مطابق شیواجی مہاراج نے بڑی جدوجہد اور مقابلہ آرائی سے مغربی مہاراشٹر میں ہندوی سوراجیہ کی بنیاد ڈالی اور قلعہ رائے گڑھ کو اپنی راجدھانی بنائی۔
16 جون 1674 کواپنی تاج پوشی کروائی لیکن یہ تاج پوشی اتنی آسانی سے ممکن نہ تھی۔ اس وقت کے برہمنوںنے مخالفت کی تھی جس کی وجہ برہمنوں نے یہ دی تھی کہ مہاراج شودر (نچلی ذات) کے ہیں اس لیے ہم ان کی تاج پوشی نہیں کریں گے۔
مجبوراً مہاراج کاشی کے پنڈت گاگا بھٹ کو تاج پوشی کے لیے ایک بڑی رقم دے کر بلوایا گیا۔ اس طرح مہاراج کی تاج پوشی عمل میں آئی۔
انہوں نے سوارجیہ قایم کرنے کے بعد اپنی ریاست کو کئی اضلاع میں تقسیم کیا۔ قلعے تعمیر کیے۔
مہاتما جیوتی باپھلے نے شیواجی پر ایک پواڑہ (لوک گیت) لکھا ہے اس میں انہوں نے شیواجی کو کلواڑی بھوشن لکھا ہے۔ اس لوک گیت کے آخر میں وہ شیواجی کو شودر کا سپوت کہتے ہیں یعنی شیواجی بھوسلے شودر کے فرزند تھے۔
مورخ شیجوالکر نے شیواجی کی سوانح حیات لکھتے ہوئے ان کے خاندان کی جو معلومات جمع کی ہیں اس میں انہوں نے اس لوک گیت کا ذکر کیا ہے۔
ان کی موت تین اپریل 1680 کو بمقام رائے گڑھ ہوئی۔ شیواجی مہاراج کی موت کس وجہ سے ہوئی اس بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پہلی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی موت ٹائیفائیڈ کی وجہ سے ہوئی، تاہم بعض کا کہنا ہے ان کو زہر دے کر مارا گیا یا خون میں انفیکشن کی وجہ سے ان کی طبعی موت ہوئی۔