پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پاکستان میں مختصر ویڈیو ایپ ٹک ٹاک کو بند کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کی احکامات کی روشنی میں ٹک ٹاک کو بند کیا گیا ہے۔
خرم مہران نے مزید بتایا کہ ’ہم نے عدالت کے احکامات کی روشنی میں سروس پروائڈر کو بتایا کہ ایپ کو پاکستان میں بند کر دیا جائے اور اس کو بند کر دیا گیا۔‘
اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ نے جمعرات کو مقبول سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کو ’ملک میں بے حیائی پھیلانے‘ کی وجہ قرار دیتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو حکم دیا تھا کہ اسے فوراً بند کیا جائے۔
اس سے قبل پاکستان میں ٹک ٹاک کے نمائندے کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت کے اس فیصلے کے بارے میں سنا ہے اور ان کی کمپنی مناسب وقت پر اس حوالے سے مزید بات کرے گی۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید کی عدالت میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جمعرات کو ڈائریکٹر جنرل پی ٹی اے، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور درخواست گزار کی وکیل نازش مظفر پیش ہوئیں۔
دوران سماعت جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیے کہ ٹک ٹاک پر اپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز ’ہمارے معاشرے میں قابل قبول نہیں کیونکہ ان سے فحاشی پھیل رہی ہے۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ دوسرے ممالک میں اس کی اجازت ہوگی لیکن ’ہمارا معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا اور اس ایپ سے نوجوان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے ڈی جی پی ٹی اے سے استفسار کیا کہ کیا ٹک ٹاک بند کرنے سے ٹک ٹاک کمپنی کو نقصان ہوگا؟ جواب میں ڈی جی پی ٹی اے نے بتایا کہ جی، نقصان ہوگا۔
اس پر عدالت نے حکم دیا کہ ایپ کو پاکستان میں اس وقت تک بند رکھا جائے جب تک ٹک ٹاک کمپنی کی انتظامیہ غیر اخلاقی مواد نہیں ہٹا دیتی۔
ڈی جی پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ ٹک ٹاک پر روزانہ مختلف زبانوں میں 45 لاکھ سے زائد ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں اور ان سب کو فلٹر کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ٹک ٹاک کا مرکزی دفتر سنگاپور میں ہے جبکہ اسے دبئی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درخواست گزار کی وکیل نازش مظفر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سماعت کے دوران عدالت نے پہلے پی ٹی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کو تین ہفتے کا وقت دیا تھا کہ وہ ٹک ٹاک کو فلٹر کرنے کا کوئی طریقہ کار بنائیں۔
تاہم نازش کے مطابق پی ٹی اے نے آج عدالت کو جو رپورٹ پیش کی وہ ’اطمینان بخش نہیں تھی‘، پی ٹی اے نے واضح طور پر اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ٹک ٹاک انتظامیہ کے تعاون کے بغیر اس پر مواد فلٹر کرنا ممکن نہیں۔
نازش نے بتایا، ’ہم نے عدالت کے سامنے استدعا رکھی کہ بطور تفریح یہ ایپ ٹھیک ہے لیکن اس پر بہت زیادہ غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ ہو رہا ہے۔’
یاد رہے کہ پی ٹی اے نے گذشتہ سال اکتوبر میں پاکستان کے اندر ٹک ٹاک کو بند کرتے ہوئے اس کی انتظامیہ کو بتایا تھا کہ وہ اس پر موجود غیر اخلاقی مواد ہٹائے۔
تاہم پابندی لگانے کے 10 دن بعد ایپ کو دوبارہ کھول دیا گیا کیونکہ پی ٹی اے نے اس وقت بتایا تھا کہ ٹک ٹاک انتظامیہ نے پاکستانی اتھارٹی کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پی ٹی اے کے مطابق ملک میں ٹک ٹاک صارفین کی تعداد دو کروڑ سے زائد ہے اور یہ فیس بک اور واٹس ایپ کے بعد سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی موبائل ایپلیکیشنز میں شامل ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ کیا کہتے ہیں؟
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے سربراہ اسد بیگ نے بتایا کہ بنیادی طور ٹک ٹاک میں دو مسئلے ہیں جنھیں دیکھنا ضروری ہے۔
پہلا مسئلہ، اسد کے مطابق، ٹک ٹاک پر تشدد کو کھلے عام زیادہ فروغ دیا جا رہا ہے اور پی ٹی اے سمیت ٹک ٹاک انتظامیہ کو سوچنا چاہیے کہ اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے۔
اسد بیگ نے بتایا، ’کسی بھی پلیٹ فارم کو بند کرنے سے پاکستان کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ماضی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔‘
اسد نے بتایا کہ فحاشی اور بے حیائی کی ہر ایک کے ذہن میں الگ تعریف ہے اور اسی وجہ سے اگر ہم کسی پلیٹ فارم کو بند کریں گے تو بعد میں ہمیں پورا انٹرنیٹ بند کرنا پڑ جائے گا۔
اسد نے بتایا کہ فیس بک پر بھی پیڈوفائل اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث بہت سے گروپس ہیں لیکن انہیں بنیاد بنا کر فیس بک بند کرنا مناسب نہیں بلکہ ایسے مواد کی نشاندہی اور اس کو فلٹر کرنے کے لیے طریقہ کار ہونا چاہیے۔