پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت اسے آسٹرازینیکا اور آکسفورڈ کی تیار کردہ کرونا (کورونا) ویکسین کی فراہمی میں تاخیر کر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت کے مطابق اس ویکسین کی پہلی کھیپ دو مارچ تک پاکستان کو دستیاب ہونا تھی۔
یہ ویکسین بھارت میں سیرم انسٹی ٹیوٹ میں تیار کی جا رہی ہے جو کہ دنیا میں ویکسین تیار کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ بھارت نے عالمی ادارہ صحت کے کوویکس پروگرام کے تحت دنیا کے 92 ایسے ممالک کو کرونا کی ویکسین فراہم کرنی ہیں جو کم یا درمیانی آمدنی رکھتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق کوویکس پروگرام کے تحت 2021 کے اختتام تک کرونا وائرس کی ویکسن کی دو ارب خوراکیں افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے غریب ممالک کو فراہم کی جائیں گی تاکہ دنیا کی 20 فیصد غیرمحفوظ آبادی کو کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جا سکے۔
صحت کی پارلیمانی سیکریٹری نوشین حامد کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو آسٹرازینیکا ویکسین کی فراہمی برآمدی استثنیٰ سرٹیفیکیٹ کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ یہ ویکسین بھارت سے آنی ہے اس لیے انہوں نے یہ سرٹیفیکیٹ جاری کرنے میں تاخیر کر دی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت ایسا جان بوجھ کے کر رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی کہ یہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے یا نہیں لیکن اس فراہمی میں تاخیر بھارت کی طرف سے کی جا رہی ہے۔‘
اب اسلام آباد مارچ کے وسط تک آسٹرازینیکا ویکسین کی پہلی کھیپ کا منتظر ہے۔ منصوبے کے مطابق پاکستان کو جون تک اس ویکسین کی چار کروڑ 50 لاکھ خوراکیں فراہم کی جائیں گی، جو دو سے تین قسطوں میں ملیں گی۔ پہلی کھیپ میں کم سے کم ایک کروڑ چالیس لاکھ خوراکوں کی توقع کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فروری سے کوویکس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 78 لاکھ خوراکیں روانہ کی جا چکی ہیں۔ ابھی تک یہ خوراکیں حاصل کرنے والے ممالک میں فلپائن، سوڈان، روانڈا، کینیا، گمبیا، کمبوڈیا، انگولا، نائجیریا اور گھانا شامل ہیں۔
پاکستان نے فروری کے آغاز میں چین سے ملنے والی پانچ لاکھ خوراکوں سے طبی عملے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ویکسینیشن پروگرام شروع کیا تھا۔
بدھ کو حکومت ویکسینیشن مہم کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے جس میں 60 سال سے زائد عمر کے شہریوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔
آسٹرازینیکا کی کووڈ 19 کی ویکسین، جس کا نام ’اے زی ڈی ون ٹو ٹو ٹو‘ ہے، کو دو سے آٹھ ڈگری درجہ حرارت پر چھ ماہ تک محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے محکمہ صحت کے مطابق اس کو آسانی سے مریضوں کو لگایا بھی جا سکتا ہے۔