لاہور کے علاقے گلبرگ کی مرکزی شاہرہ کی ایک گلی میں کھڑی گاڑی کے باہر نوجوانوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ کوئی کافی لینے کا منتظر ہے تو کوئی مکس پھلوں یا سبزیوں کا جوس، سمودی۔
ایک گاڑی میں چلنے والی یہ انوکھے طرز کی کافی شاپ آغا علی اور ان کے کزن ارسلان میر کی کاوش ہے جس نے جلد ہی کئی گاہک بنا لیے ہیں۔
آغا علی ملائشیا میں معروف بین الاقوامی کافی چین سٹار بکس کے لیے کام کرتے تھے اسی لیے انہیں کافی بنانے کا شوق پیدا ہو گیا۔ پاکستان واپس آکر انہوں نے یہاں بھی کچھ عرصے ایک معروف کافی چین کے لیے مینیجر کے طور کام شروع کیا۔
دوسری جانب ان کے کزن ارسلان میر نے بی بی اے تو کیا مگر انہیں نوکری کا شوق نہیں تھا۔ بس دونوں نے مل کر گذشتہ برس ستمبر میں علامہ اقبال ٹاؤن میں ایک کافی شاپ کھولی، اور کام شروع کر دیا۔
تاہم بدقسمتی سے چند ماہ بعد ہی کرونا وبا کی ایک اور لہر کے سبب ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن لگا، ریستوران اور کافی شاپس کے اندر بیٹھ کر کھانا پینا بند ہوا اور سکول کالجز بھی بند ہو گئے۔ اسی وجہ سے ان دونوں کے کاروبار کو بھی دھچکا لگا۔
علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اپنی گاڑی بیچنے والے تھے پھر انہیں خیال آیا کہ انہوں نے دیکھا تھا کہ ملائشیا میں بھی لوگ اپنی گاڑیوں میں کاروبار کرتے ہیں، یہاں تک کہ لینڈ کروزر میں سبزیاں بیچتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تو بس انہوں نے بھی کام بند کرنے سے پہلے اس طریقہ کاروبار کو ایک بار آزمانے کا سوچا۔ علی کہتے ہیں کہ دو ہفتوں میں انہوں نے اپنی گاڑی میں کافی مشین چلانے کے لیے بجلی اور پانی کی سپلائی کا سسٹم لگایا اور گاڑی یہاں لاکر کھڑی کر دی۔
ارسلان میر نے بتایا کہ انہوں نے گلبرگ کا یہ علاقہ اس لیے چنا تھا کیونکہ ان کے خیال میں یہاں کے لوگ کافی پینا پسند کرتے ہیں اور کافی کے عادی ہیں۔ ارسلان کا کہنا ہے کہ جب ان کی دکان بند ہوئی تو حالات اتنے خراب ہوئے کہ کرایہ دینا بھی مشکل ہو گیا اس لیے وہ کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ رہے تھے جہاں کرایہ نہ دینا پڑے۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ گاڑی بس یہاں لا کر کھڑی کر دی اور کام شروع کر دیا فی الحال ان سے کسی نے کرائے یا کسی اجازت نامے کا تقاضہ نہیں کیا۔
اس کافی شاپ کے بالکل سڑک پار شاپنگ مال میں ایک مشہور کافی شاپ بھی ہے۔ ان دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ ان کی کافی کسی بڑے برانڈ کی کافی سے کم نہیں۔ ان کی قیمتیں البتہ ضرور کم ہیں۔ ارسلان نے بتایا کہ جو کافی بڑی کافی شاپس میں پانچ یا چھ سو روپے کی ملتی ہے وہی کافی یہ ڈھائی سو روپے میں دیتے ہیں۔
جب ہم ان دونوں کا انٹرویو کر رہے تھے تو اسی دوران بہت سے گاہک کافی یا سمودیز لینے کے لیے یہاں آئے۔ کچھ نے کہا یہ قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے یہ طالب علموں کے لیے موضوع جگہ ہے جبکہ کچھ نے کہا کہ وہ یہاں سے خرید کر چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
ارسلان اور علی کا کہنا ہے کہ وہ یہاں صفائی کا پورا خیال رکھتے ہیں تاکہ ان کے گاہک پوری تسلی کے ساتھ اپنی کافی کا مزا لیں۔ دونوں کا ماننا ہے کہ زندگی میں برا وقت آتا ہے تو اچھا بھی آتا ہے۔ امید نہیں چھوڑنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے نہ کہ ڈپریشن میں جاکر منفی ہو جائیں۔ اللہ پر یقین کر کے کچھ نیا شروع کرنا چاہیے۔