ہرنائی سے تعلق رکھنے والے ملک عمر نے 2011 میں چھ ایکڑ اراضی حکومت کو سکول اور دیگر فلاحی مقاصد کے لیے دی تھی لیکن انہیں اس نیکی کے بدلے 200 ایکڑ سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔
بلوچستان کا ضلع ہرنائی صوبے کے شمالی مشرقی علاقے میں واقع ہے۔ یہ علاقہ چاروں اطراف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ لورالائی، زیارت، سبی اور کوئٹہ سے منسلک یہ علاقہ کوئلے کی کانوں سے مالامال ہے، جب کہ یہاں کی اکثریتی آبادی پشتونوں پر مشتمل ہے۔
ملک عمر کی زمین چونکہ غیر پیمائش شدہ (غیر پیمودہ) تھی اور اس کا سرکاری طور پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا، لہذا جب یہاں سیٹلمنٹ ہوئی تو ڈپٹی کمشنر ہرنائی نے یہ زمین حکومت کی ملکیت قرار دے کر 200 ایکٹر اراضی اپنے نام پر منتقل کردی۔ اس حوالے سے اب تک کیس عدالتوں میں چل رہا ہے۔
صرف ملک عمر کے لیے ہی نہیں بلکہ بلوچستان میں جہاں جہاں قبائل کی زمینیں ہیں، جنہیں 85-1984 میں بندوبست کے دوران ریکارڈ نہیں کیا گیا، وہاں پر یہ مسائل کھڑے ہورہے ہیں۔
اجمل خان کاکڑ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور بلوچستان کے قبائلی معاشرے کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے کیس دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔
اجمل کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب ایسے مسائل میرے سامنے آتے گئے تو مجھے لگا کہ اس پر قدم اٹھانا چاہیے کیوں کہ یہ ایک فرد کا نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے۔‘
انہوں نے اپنے نام سے بلوچستان ہائی کورٹ میں گذشتہ سال ایک پٹیشن فائل کی، جس میں حکومت اور سیکرٹری بورڈ آف ریونیو اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو فریق بنایا گیا۔
اجمل کے بقول: ’میں نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ لینڈ ریونیو ایکٹ کا قانون موجود ہے، جس کی شق 50 اور ذیلی شق دو کے مطابق جو بھی زمین دار ہیں۔ وہ ہی غیر پیمائش شدہ زمین کے مالک ہیں۔‘
سیٹلمنٹ (بندوبست) کا سلسلہ کب سے شروع ہوا؟
بلوچستان میں اس کی ابتدا پاکستان بننے سے قبل 1896 میں ہوئی۔ اس کے بعد 02-1901 میں زمینوں کا ریکارڈ مرتب کیا گیا۔ اس دوران جن اراضیوں کا ریکارڈ موجود نہیں تھا، ان کو اس کا حصہ بنایا گیا۔
پھر اس کے بعد 45-1941کے دوران جب اس خطے میں فسادات بھی ہو رہے تھے، یہ کام انگریز کے دور میں ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد 86-1985 میں بندوبست کا کام کیا گیا، جس کے ذریعے کچھ اراضیوں کا ریکارڈ مرتب کیا گیا۔
اجمل خان نے بتایا کہ اس دوران بدقسمتی سے 1995 میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سیٹلمںٹ کو منسوخ کردیا گیا اور جو جن اراضیوں کا اندراج کیا گیا تھا، ان کو بھی ختم کردیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2012 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا، لیکن جو غیر پیمائش شدہ اراضی تھی، وہ ویسے ہی پڑی رہی۔
جب یہ سلسلہ چل رہا تھا تو بلوچستان کی حکومت ایک اور نوٹیفکیشن کےذریعے کسی کو 200 ایکڑ تو کسی کو اس سے زیادہ زمین سے نوازتی رہی۔
اجمل نے بتایا کہ جب کبھی حکومت کو فلاحی کاموں یا سڑکوں کی تعمیر کے لیے زمین کی ضرورت پڑتی ہے تو اس حوالے سے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ موجود ہے، جس کے تحت وہ زمین مالکان سے معاوضے کے عوض حاصل کرسکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’دوسری جانب جب میرے پاس ایسے کیس اور لوگ آنے لگے جن کی زمینوں پر قبضے ہو رہے تھے اور جن کو اپنی ہی زمینوں سے بے دخل کیا جارہا تھا، تو تب میں نے یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔‘
اجمل کے بقول: ’کیس دائر ہونے اور قابل سماعت ہونے کے بعد چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال مندوخیل نے اس پر لارجر بینچ تشکیل دیا۔‘
اس کیس کو عدالت عالیہ کے پانچ ججز نے سنا۔ اس دوران حکومت کا موقف ایڈووکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل نے پیش کیا۔ اس کے علاوہ عدالت نے اپنی معاونت کے لیے بھی وکلا مقرر کیے۔
اجمل نے بتایا کہ اب آخرکار گذشتہ ہفتے 18 مارچ کو اس کیس کا فیصلہ آیا، جس میں عدالت نے کہا کہ یہ قیاس آرائی ہے کہ زمین کی ملکیت کس کی ہے۔
عدالت عالیہ کا مزید کہنا تھا کہ قانون موجود ہے کہ جو غیر پیمائش شدہ اراضی ہے وہ ان قبائل کی ملکیت ہے جو وہاں رہتے ہیں۔
اجمل نے بتایا کہ اگر ہم بلوچستان کے ضلع ژوب کو دیکھیں تو وہاں بندوبست نہ ہونے والی زمین موجود ہے۔ اسی طرح قلعہ سیف اللہ، منگیچر اور قلات کے قبائلیوں کی ملکیت میں بھی اراضی موجود ہے، جن کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں بھی ایسی زمینیں موجود ہیں، جس میں ہنہ اوڑک، ایئرپورٹ روڈ اور چشمہ اچوزئی شامل ہیں۔ ان زمینوں کا ابھی تک کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
اجمل کاکڑ نے بتایا کہ عدالت نے حکم دیا کہ ان زمینوں کا باقاعدہ بندوبست کیا جائے اور یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ زمین ان قبائل کی ملکیت ہے جو وہاں پر آباد ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ کیس کی سماعت کے دوران حکومت نے جواب داخل کروایا کہ جو غیر پیمائش شدہ زمین ہے وہ سرکار کی ملکیت ہے، جس کے لیے انہوں نے سیکشن 50 کی ایک ذیلی شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان زمینوں کو سرکار کی تحویل میں دے دیا جائے۔
اجمل نے بتایا: ’اس دوران میں نے موقف اپنایا کہ ایسی زمینوں کے لیے قانون موجود ہے۔ 1876 میں سیٹلمنٹ کی گئی اور قانون کے مطابق یہ زمین پیمائش اور ریکارڈ میں لانے کے بعد زمین داروں کو دی جائے گی۔‘
سابقہ ادوار میں کیا ہوا؟
اجمل کاکڑ کے مطابق 2018 میں بھی ایک کیس دائر ہوا تھا، جو شیر خان بازئی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مقدمے میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سرہ غڑ گئی کے علاقے کی زمین کا بندوبست نہیں ہوا۔
اس کے علاوہ جسٹس نواز خان مری نے ایک کیس 1988 میں دائر کیا تھا، جب وہ سپریم کورٹ کے وکیل تھے، کیونکہ ان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اس کیس میں عدالت عالیہ نے جسٹس نواز مری کو ان کی غیر پیمائش شدہ اراضی کا مالک قرار دیا تھا۔ اس کے بعد یاسین زئی قبائل کا مسئلہ سامنے آیا۔ اس وقت ملک سکندر کاکڑ سپیکر بلوچستان اسمبلی تھے تو انہوں نے اسمبلی سے ایک قرارداد پاس کی تھی۔
زمین کی سیٹلمنٹ (بندوبست) کس طرح کی جاتی ہے؟
اجمل کے بقول: ’یہ نوٹیفکیشن سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی طرف سے سیکشن 116 لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت جاری ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ مذکورہ جگہ کو منتخب کرتے ہیں۔‘
اس حوالے سے علاقے کے مرکزی مقامات پر نوٹس لگائے جاتے ہے اور اخبارات میں شائع ہوتا ہے کہ اس علاقے میں فلاں اراضی کا بندوبست ہونے جا رہا ہے۔
اس کے بعد محکمہ مال کے جو اہلکار وہاں جاکر زمینوں کی پیمائش کرتے ہیں اور وہاں کے قبائل کے سربراہ اور عام لوگوں سے ملتے ہیں۔ ریونیو اتھارٹی سے ریکارڈ منگوایا جاتا ہے اور اس کے بعد انتقال رجسٹرڈ کرتے ہیں۔ جو پتی داران کو ریکارڈ دکھاتے ہیں کہ آپ کی اتنی زمین اس ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اگر کسی کو اعتراض ہوتا ہے تو وہ اپنا اعتراض جمع کرواتا ہے، جس کو حل کرنے کے بعد عدالتی فیصلہ دیا جاتا ہے۔ اعتراض کی صورت میں عارضی ریکارڈ میں ترمیم کی جاتی ہے اور ریکارڈ کو دوبارہ تحصیل آفس بجھوا دیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں زمینوں کے حوالے سے پاکستان بننے سے قبل بمبئی لینڈ ریونیو ایکٹ اور اس کے بعد پنجاب ایکٹ لاگو تھا۔ پھر اس کے بعد 1967 میں بلوچستان لینڈ ریونیو ایکٹ بنا جو سابقہ قوانین کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا۔
اجمل نے بتایا کہ چونکہ اس حوالے سے قانون موجود تھا لیکن کوئی واضح فیصلہ نہیں آیا تھا، جو حالیہ کیس کے فیصلے کے بعد واضح ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قانون تو موجود ہے، اگر متعلقہ محکمے کے اہلکار اور دیگر ادارے اس پر عمل کریں تو کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی، لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ محکمہ مال کی طرف سے زمینوں کی بندر بانٹ بھی کی گئی ہے۔
گو کہ اب بھی لوگوں کو انصاف کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، لیکن اس فیصلے سے انہیں امید ہو چلی ہے کہ اب زمین کی ملکیت کا حصول ممکن بن گیا ہے۔