آسڑیلیا میں ریکارڈ بارشیں، گھر ہی پانی میں بہہ گئے

آسٹریلیا میں شدید بارشیں گذشتہ 502 سالوں میں آنے والے بدترین سیلاب کا سبب بنی ہیں جس کے بعد آسٹریلیا کے مشرقی علاقے میں ہزاروں لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

آسٹریلیا کے مشرقی ساحلی خطے میں گذشتہ 50 سال میں آنے والے بدترین سیلاب کے متاثرین میں ایک جوڑا ایسا بھی ہے جو اپنی شادی والے دن جاگا تو معلوم ہوا کہ ان کا مکان ہی سیلاب میں بہہ چکا ہے۔

سارہ سورز اور جوشوآ ایج نیو ساؤتھ ویلز کے علاقے مونڈروک میں کرائے پر لیے گئے اپنے تین بیڈ رومز کے کاٹیج کے باہر ہفتے کو شادی کرنے والے تھے۔

لیکن ہمسائے صدمے کی حالت میں دیکھتے ہی رہ گئے اور دریائے میننگ، جس میں طغیانی آئی ہوئی تھی، کاٹیج کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ 

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دریا میں بہتا ہوا کاٹیج مکمل حالت میں تھا۔ خوش قسمتی سے جوڑا اس وقت کاٹیج میں نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھا۔

ٹیلی ویژن چینل ’اے بی سی نیوز‘ کے مطابق  جوڑے نے یہ کاٹیج اس کے مالکوں پیٹر بووی اور ٹریشیا ملٹن سے کرائے پر لیا تھا، جن کے بارے میں کہا جارہا ہے وہ جائیداد کھونے کے بعد ’تباہ‘ ہو کر رہ گئے ہیں۔

بووی نے نشریاتی اداروں کو بتایا کہ جوڑے نے اپنے گھر کے سامنے دریا کے کنارے پر شادی کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا لیکن موسم زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے انہیں شادی ملتوی کرنی پڑی۔

 

’اے بی سی نیوز‘ نے مزید بتایا ہے کہ علاقے کے لوگ بارشوں کے دوران لاپتہ ہونے والے بووی اور ملٹن کے 180 مویشیوں کو تلاش کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں۔

یہ شدید بارشیں نصف صدی میں آنے والے بدترین سیلاب کا سبب بنیں جس کے بعد آسٹریلیا کے مشرقی علاقے میں ہزاروں لوگ ہفتے کے اختتام پر گھر خالی کر کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔

نیو ساؤتھ ویلز کی وزیر اعلیٰ گلیڈس بیری یکلیئن نے کہا ہے کہ ریاست بھر میں بارشیں ابتدائی توقع سے بڑھ کر بدتر ثابت ہوئیں۔ خاص طور پر سڈنی کے شمال مغربی نشیبی علاقوں کے لیے۔ نیو ساؤتھ ویلز 80 لاکھ کی آبادی کے ساتھ آسٹریلیا کا گنجان ترین علاقہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی بریفنگ میں کہا کہ ’کل ہم توقع کررہے تھے کہ یہ محض 20 سال میں ایک بار ہونے والا واقعہ ہو گا لیکن اب ایسا لگتا ہے یہ 50 سال میں ایک بار ہونے والا واقع ہے۔‘

سڈنی کے شمال مغربی علاقوں کے لوگوں کو آدھی رات کو حکم دیا گیا کہ وہ گھروں سے نکل جائیں کیونکہ تیزی سے بہتے ہوئے پانی نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی۔

اتوارکی شام تقریباً ایک ہزار لوگوں کو گھر خالی کرنے کا کہا گیا۔ اس سے پہلے بیری یکلیئن نے کہا تھا کہ تقریباً چار ہزارافراد کو گھر خالی کرنے کا کہا جا سکتا ہے۔

 

ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تیزی سے بہتا ہوا پانی مکانوں کو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ سڑکوں کو چھپا لیا۔ درخت اکھڑ گئے اور سڑٖکوں کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔

ہنگامی حالات کے ادارے نے اندازہ لگایا ہے کہ جن مکانوں کو نقصان پہنچا ان کی تعداد ’سینکڑوں میں’ ہو سکتی ہے۔ ریاست بھر میں کئی شاہراہیں بند ہو گئی ہیں جب کہ کئی سکولوں نے پیر کو ہونے والی کلاسز ملتوی کر دی ہیں۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں متاثرین کے لیے وفاقی سطح پر مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔

موجودہ سیلاب کی آفت آسٹریلیا میں جنگلات کو 2019 کے آخر اور2020 میں لگنے والی آگ سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ آگ سے نیو ساؤتھ ویلز کی تقریباً سات فیصد زمین جل گئی تھی۔

نیو ساؤتھ ویلز کے تقریباً 13 علاقوں میں سیلاب کے خطرے اور علاقے چھوڑنے کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔ ان میں ہنٹرکا علاقہ بھی شامل ہے، جو شراب تیار کرنے والے آسٹریلیا کے بڑے علاقوں میں سے ایک ہے۔

سڈنی میں پانی کی فراہمی کی مرکزی تنصیب واراگمبہ سمیت متعدد ڈیموں میں پانی لبریز ہوگیا جس کی وجہ سے دریاوں کی سطح بلند ہو گئی۔ ماہرین موسمیات نے کہا ہےکہ بارشیں کئی روز تک جاری رہیں گی۔

ہنگامی حالات سے نمٹنے والے عملے نے جمعرات کو بارشیں شروع ہونے کے بعد سے مدد کے لیے کی گئی تقریباً چھ ہزار ٹیلی فون کالز کا جواب دیا ہے۔ ان میں سیلاب سے بچانے کی تقریباً سات سو براہ راست درخواستیں بھی شامل ہیں۔


(اس رپورٹ میں روئٹرز کی اضافی معاونت شامل ہے)

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا