فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے خبردار کیا ہے کہ ترکی اگلے سال فرانس میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں مداخلت کر سکتا ہے۔
ٹی وی پر منگل کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں صدر میکروں نے انقرہ پر سرکاری میڈیا کے ذریعے ’جھوٹ پھیلانے‘ کا الزام بھی عائد کیا۔
’فرانس فائیو‘ چینل سے بات کرتے ہوئے صدر میکروں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان فرانس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں جو لیبیا، شام، آرمینیا آذربائیجان تنازعے اور فرانس میں اسلامو فوبیا کے ترکی کے الزامات کے نتیجے میں خراب ہوئے ہیں۔
تاہم جہاں میکروں نے اصرار کیا کہ یورپ کبھی ترکی سے منہ نہیں موڑے گا وہیں انہوں نے کہا کہ تعلقات میں بہتری لانا تب تک مشکل ہوگا جب تک انقرہ اپنا رویا تبدیل نہیں کرتا۔
میکروں جو 2022 میں ہونے والے الیکشن میں دوبارہ جیتنے کے لیے پرامید ہیں نے کہا کہ ’اگلے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوششیں کی جائیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میں اسے ناقابل قبول سمجھتا ہوں۔ یہ لکھا ہوا ہے۔۔۔ دھمکیاں ڈھکی چھپی نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ مداخلت ’عوامی رائے کو بدلنے‘ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
میکروں نے ترکی پر تنقید کی کہ اس نے گذشتہ سال اکتوبر میں فرانس میں شدت پسندوں کے کچھ حملوں کے بعد اسلام کے حوالے سے ان کے بیانات کو توڑ مڑور کر پیش کیا۔
ان کا کہنا تھا: ’گذشہ موسم خزاں میں واضح طور پر جھوٹ کی سیاست ہوئی۔ ریاست کے جھوٹ، ترک ریاست کے سرکاری میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے جھوٹ، قطر کی ملکیت کچھ بڑے چینلوں سے پھیلائے گئے جھوٹ۔‘
ان کا اشارہ دوحہ میں قائم ’الجزیرہ‘ چینل کی طرف تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے پر قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے بھی بات کی جو صدر اردوغان کے قریب ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر میکروں نے کہا: ’میرے بیانات کو جھوٹ بنا کر پیش کیا گیا اور فرانس کو ایک ایسا ملک دکھایا گیا جسے اسلام سے مسئلہ ہے۔‘
میکروں اور اردوغان کے درمیان تعلقات گذشتہ سال کافی حد تک خراب ہوگئے جب فرانس کی جانب سے بنیاد پرست اسلام پر قابو پانے کے لیے قانون متعارف کروانے کے بعد دنیا بھر میں تشویش بڑھی اور صدر اردوغان نے یہ تک کہہ دیا کہ میکروں کو ’ذہنی چین اپ‘ کی ضرورت ہے۔
دسمبر میں اردوغان نے کہا کہ فرانس جتنی جلدی ہوسکے میکروں سے ’جان چھڑا‘ لے اور انہیں فرانس کے لیے ’مصیبت‘ قرار دیا۔
اس سال ترکی نے فرانس اور یورپی یونین کی جانب اپنا رویا تھوڑا نرم کر لیا ہے مگر میکروں نے اشارہ کیا ہے کہ اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا: ’میں نے دیکھا ہے کہ اس سال کے شروع سے صدر اردوغان رابطے بحال کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ میں ماننا چاہتا ہوں کہ ایسا ممکن ہے مگر ہم ابہامات کی موجودگی میں دوبارہ ان سے بات نہیں کر سکتے۔ میں بہتر تعلقات کے لیے دوبارہ رابطے بحال کرنے نہیں چاہتا جب تک ایسے اقدامات ہیں۔‘
ان کا اصرار تھا کہ فرانس ’بلیک میل‘ کے سامنے ہار نہیں مانے گا مگر کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ یورپ کو انقرہ کے ساتھ مل کر مائیگریشن پالیسی پر کام کرنا ہے کیونکی ترکی میں لاکھوں شامی پناہ گزین بسر ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’ایک دن ہم کہہ دیں کہ ہم ان کے ساتھ مزید کام اور بات نہیں کر رہے تو وہ اپنی سرحدیں کھول دیں گے اور یورپ میں 30 لاکھ شامی پناہ گزین آجائیں گے۔‘
انہوں نے کہ کہ نیٹو میں ترکی کے رویے کی ’وضاحت‘ کی ضرورت ہے اور انہوں نے لیبیا میں ترکی کے اقدامات پر بھی تنقید کی۔
صدر نے کہا: ’ترکی نے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا، اس نے غیر ملکی جنگجو اور اپنی فوج کو (لیبیا میں) بھیجا۔ میں کافی زور لگا رہا ہوں کہ تاکہ وہ انخلا کریں۔‘