پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ملک کے مرکزی بینک سے متعلق قانون میں ترامیم کے ذریعے ملک کی معاشی ترقی سے متعلق اقدامات کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مقاصد میں تیسری ترجیح بنانے کی تجویز پیش کی ہے، جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے۔
ملک میں معاشی ترقی کے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956کے پری ایمبل میں تذکرے کے برعکس، قانون میں مجوزہ ترامیم کے ذریعے قیمتوں اور مالیاتی امور کا استحکام مرکزی بینک کی بالترتیب پہلی اور دوسری ترجیحات کے طور پر رکھا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت کے پیش کردہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ ترمیمی بل میں بینک کو آزاد ادارہ بنانے کے لیے کئی تجاویز پیش کی گئی ہیں، لیکن اس کی ذمہ داریوں میں معاشی ترقی کے لیے اقدامات کو تیسری ترجیح بنانے پر زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔
معاشی امور پر لکھنے والے صحافی مہتاب حیدر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’اگر سٹیٹ بینک معاشی ترقی میں حکومت کی مدد نہیں کرے گا تو ملک میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر سٹیٹ بینک کو قیمتوں کے استحکام اور افراط زر کنٹرول کرنے پر لگا دیا گیا تو ملک میں معاشی ترقی کے پہیے کی رفتار کم ہو جائے گی۔
مہتاب حیدر نے مزید کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں معاشی اشاریے بالکل مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں، جبکہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ملکوں میں صورت حال اور مسائل کے حل مختلف ہیں۔
’کسی معیشت کو استحکام دینے کے لیے حکومتیں مالی حکمت عملی پر توجہ دیتی ہیں اور مرکزی بینک کا دائرہ اختیار مانیٹری پالیسیز ہوتی ہیں، لیکن مجوزہ ترمیم میں دونوں کاموں کو گڈ مڈ کر دیا گیا ہے۔ ہماری پالیسیاں ایسی ہونی چاہییں جو ترقی کی رفتار کو تیز کریں۔‘
وزیراعظم کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے سابق رکن ثاقب شیرانی حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’سٹیٹ بینک ایکٹ میں آئی ایم ایف کی مجوزہ ترامیم غلط، غیرضروری اور ضرورت سے زیادہ مداخلت پر مبنی ہیں۔ اس سے بھی برا یہ کہ یہ نصیحت کسی مضبوط بنیاد پر نہیں دی گئی ہے۔‘
دوسری جانب سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر سلیم رضا نے مذکورہ ترمیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی معاشرے میں ترقی کا انحصار بڑی حد تک اشیا کی قیمتوں اور مالی استحکام پر ہوتا ہے۔ اب سٹیٹ بینک کو بتانا ہو گا کہ مارکیٹ کے حوالے سے ان کا کیا خیال ہے اور اس کے لیے انہیں بہت زیادہ کام کرنا ہو گا۔‘
وفاقی وزارت خزانہ کی وضاحت کے مطابق ان تجاویز سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مقاصد واضح ہوں گے اور اسے مزید خود مختار بنانے کے علاوہ بینک کی کرکردگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
حکومت کے لیے قرض کی سہولت
موجودہ قانون کے تحت حکومت، سٹیٹ بینک سے خاص حد تک قرض لے سکتی ہے جبکہ مجوزہ بل میں حکومت کو اس سہولت سے محروم کر دیا گیا ہے۔
مہتاب حیدر نے اس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر سٹیٹ بینک قرض نہیں دے گا تو حکومت یا تو ملک کے کمرشل بینکوں سے پیسہ لے گی یا غیر ملکی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خسارے پورے کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں صورتوں میں ملکی معیشت پر برا اثر پڑے گا اور افراط زر میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔
دوسری جانب سلیم رضا کا کہنا تھا کہ موجودہ قانون کے تحت حکومت کے لیے سٹیٹ بینک سے حاصل ہونے والا قرض تین ماہ میں ادا کرنا ہوتا ہے، لہذا ان کے خیال میں وفاقی حکومت پر قرض لینے کی پابندی لگانے سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔
احتسابی عمل
مجوزہ ترامیم میں کوئی بھی حکومتی ادارہ بشمول نیب اور ایف آئی اے سٹیٹ بینک کے کسی بھی اہلکار کے خلاف بورڈ آف گورنرز کی پیشگی اجازت کے بغیر مقدمہ قائم کرنے یا احتسابی کاروائی کا مجاز نہیں ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ اس طرح سٹیٹ بینک ہر قسم کے احتساب سے آزاد ہو جائے گا جو بالکل بھی درست نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت احتساب کا نعرہ لے کر آئی ہے اور اب ان تجاویز میں ایک اہم ادارے کو احتساب سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے۔
تاہم سلیم رضا نے وضاحت کی کہ ترامیم میں احتساب کا عمل ختم نہیں کیا جا رہا بلکہ اسے بورڈ آف گورنرز کی اجازت سے مشروط کیا جا رہا ہے۔
ان کے خیال میں اس سے سٹیٹ بینک میں احتساب کا عمل زیادہ موثر ہوگا اور احتساب کے نام پر بینک کے اہلکاروں اور دوسرے حکومتی اداروں کا وقت بھی ضائع نہیں ہوگا۔
سلیم رضا نے مزید کہا کہ مجوزہ بل میں گونر سٹیٹ بینک کو پارلیمان کے سامنے سالانہ رپورٹ پیش کرنے کا پابند بنایا گیا ہے جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی فنانس کمیٹیاں اکثر بینک کے اہلکاروں کو طلب کرتی ہیں اور یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
بقول سلیم رضا: ’اب تو سٹیٹ بینک کا زیادہ احتساب ہو گا، ان رپورٹس کے ذریعے سارا ملک ان کی کارکردگی کو دیکھے اور پرکھے گا۔‘
تقرریاں اور مدت ملازمت
ترامیم میں گورنر سٹیٹ بینک کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی تجویز ہے جبکہ انہیں مزید پانچ سال کی ایکسٹینشن بھی دی جا سکتی ہے۔
اس سلسلے میں گورنر کی طرف سے دیے گئے ناموں میں سے وفاقی حکومت پانچ سال کی مدت کے لیے تین ڈپٹی گورنرز کی تقرری کرے گی جبکہ ہر ڈپٹی کو مزید پانچ سال کی ایکسٹینشن دی جا سکے گی۔
سابق گورنر سٹیٹ بینک سلیم رضا نے کہا کہ ساری دنیا میں مرکزی بینک کے سربراہ کی مدت ملازمت زیادہ ہوتی ہے اور ایسا ضروری ہے تاکہ پالیسیوں میں تسلسل رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے علاوہ دنیا کے اکثر ملکوں میں یہ مدت ملازمت آٹھ سال ہے۔
آئی ایم ایف کی پالیسیاں
وفاقی حکومت کی پیش کردہ تجاویز پر بڑا اعتراض ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ایما پر کی جا رہی ہیں اور ان کا مقصد اس ادارے کے مفادات کو تحفظ دینا ہے جبکہ اس سلسلے میں سٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر کی مثال بھی دی جاتی ہے۔
تاہم سلیم رضا نے ان اعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ شخصیات پر بحث کرنے کی بجائے ان کے کام کو دیکھنا چاہیے اور اسی طرح پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ ہمارے ملک کے مفاد میں ہیں یا نہیں؟
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگ جو اس وقت حکومتی عہدوں پر فائز ہیں، وہ اپنی نوکریوں سے استعفے دے کر آئے ہیں، اس لیے انہیں ان اداروں کا نمائندہ کہنا بالکل غلط ہوگا۔
حد سے زیادہ آزادی
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ مجوزہ ترامیم کی منظوری کی صورت میں سٹیٹ بینک آف پاکستان بہت زیادہ خود مختار ادارہ بن جائے گا اور حتیٰ کہ وفاقی حکومت بھی اسے کنٹرول نہیں کر سکے گی۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جنگ چھڑ جانے کی صورت میں حکومت زائد کرنسی چھاپتی ہے اور اس قانون کی موجودگی میں سٹیٹ بینک ایسا کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
تاہم سلیم رضا نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک مفروضہ ہے، ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ جنگ کی صورت میں تو ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے اور بنیادی انسانی حقوق تک معطل ٹھہرتے ہیں، تو ضرورت ہوئی تو حکومت اس قانون کو بھی معطل کر سکتی ہے۔‘