مارچ کے شروع ہوتے ہی عورت مارچ سے متعلق ہر سوشل پلیٹ فارم پر درجنوں پوسٹ دیکھنے میں آ رہی تھیں کہ اچانک عائشہ کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔ وہی بھارتی لڑکی جس نے شاید محبت کی شادی کی تھی، اپنے شوہر سے بہت محبت بھی کرتی تھی لیکن پھر مسائل اور تنازعات سے تنگ آکر موت کو گلے لگا گئی۔
ہمارے ہاں لڑکیوں کی شادی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ اگر میں کہوں کہ مشکلات ارینجڈ میرج میں زیادہ ہیں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ آج کل وہ لڑکیاں جو ارینجڈ میرج کا انتظار کر رہی ہیں ان کی عمریں 30 برس کو پہنچ چکی ہے اور لو میرج؟ ہر گلی میں ہو بھی رہی ہے اور ٹوٹ بھی رہی ہے۔ ارے بھئی، یہ ہو کیا رہا ہے؟
ہم آپ کو سمجھاتے ہیں کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے۔ بلاشبہ جہیز ایک لعنت ہے مگر عائشہ کی خود کشی نے ایک اور پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ شادی کو آخر ہم سب نے سمجھ کیا لیا ہے؟
ہمارے ہاں نومبر سے شادی سیزن شروع ہوتا ہے اور والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ جس شادی میں بھی وہ مدعو کیے گئے ہیں اپنی اپنی بیٹیوں کو بہترین سا تیار کرکے لے کر جاتے ہیں اور پھر جو رشتہ دار ٹارگٹ ہوتے ہیں ان کے پاس جا کر بیٹی کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں.کھانا کھلتے ہی کہتے ہیں بیٹی جاؤ آنٹی کے لیے کھانا ڈال لاؤ۔ اور ’بچی‘ بھی اتنی فنکار ہوتی ہے کہ ادائیں دکھاتی، دوپٹہ لہراتی کھانا لاتے ہی پاس بیٹھے ان کی پلیٹ کو تاڑتی رہتی ہے اور ماں کے اشارے کے ساتھ ہی گاجر کا حلوہ لینے بھی پہنچ جاتی ہے۔ پھر اماں جاتے ہوئے آنٹی کے بیٹے کو پیار دیتے ہوئے اتنا کہہ جاتی ہیں: ’اللہ تم جیسا بیٹا ہر کسی کو دے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ خاندان کی وہ آپا، جس کی زبان سب سے لمبی اور ذہن سوچنے سے بالکل عاری ہوتا ہے، اس کے کان میں بات ڈال دیتی ہیں کہ ’میں اپنی بیٹی کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہی ہوں۔ پھر دو باتیں ادھر ادھر کی کر کے اس لڑکے کی تعریف کر دیتی ہیں۔ بس جناب ہو گیا کام۔‘
اب یہ آپا دونوں خاندانوں سے تحائف بٹورتی ہیں اور مشیر کا عہدہ تو اعزاری مل ہی جاتا ہے۔ اب اگر لڑکی عام صورت کی ہے تو اس کے والدین کو سر جھکانا پڑے گا اور اگر لڑکی خوبصورت ہے تو ان کا سر کچھ ہلکا سا اوپر ہو سکتا ہے. جی جی، ایک امتحان یہ بھی ہے کہ اگر بڑی بہن پیاری نہیں ہے تو سب اس کے سامنے ہی چھوٹی بہن کا رشتہ مانگتے ہیں۔
والدین بھی امیر لڑکا دیکھتے ہی خوب صورت بیٹی کی ڈیل کرنے کو آمادہ ہو جاتے ہیں اور چیختے ضمیر کو یہ کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ آج کل اچھے رشتے ملنا مشکل ہیں، چلو کسی کا تو ہو رشتہ ۔ خیر چلیں آگے چلتے ہیں، کچھ دن گزرتے ہیں اور دوسری پارٹی چائے پر آ جاتی ہے۔ آپا ساتھ ایسے آتی ہیں جیسے ان کی ذاتی بارات ہو۔ یہاں سے ہوتا ہے اب ڈیل کا باقاعدہ آغاز۔
پیارے لڑکے کی پیاری ماں پہلی آفیشل ملاقات میں بہو کو بیٹی بنانے کی میٹھی میٹھی باتیں کرتی ہیں اور یوں شادی طے ہو جاتی ہے۔ اب جیسے جیسے شادی کا وقت قریب آتا ہے، ڈیل کی اشیا بڑھتی جاتی ہیں مگر اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ لڑکا لڑکی میں قربت بڑھ چکی ہوتی ہے۔
لڑکی والوں کی مجبوری ہے کہ ساری شرائط مانیں اور لڑکے کی اماں کا بیان ہوتا ہے کہ ان کو بھی تو پتہ چلے کہ اچھے گھر میں رشتہ ہو رہا ہے، پھر لڑکی کی ماں کو کچھ کچھ محسوس ہوتا ہے کہ لڑکے والے لالچی ہیں۔
لیکن آپا دلاسہ دیتے کہتی ہیں: ’کوئی نہیں۔ تمہاری بیٹی نے ہی استعمال کرنا ہے۔‘
وقت گزرتا ہے اور شادی منہ بنائے، دلوں میں بغض رکھے انجام کو پہنچتی ہے کہ نئی نویلی دلہن ہفتے بعد ہی فون پر بتاتی ہے کہ ساس نے جہیز میں کم برتنوں پر طعنہ دیا ہے اور استری سٹینڈ نہ ہونے کی وجہ سے لعن طعن شروع ہو گیا ہے۔
ماں پھر اسے استری کا تختہ بھیجتی ہے یہ سوچتے ہوئے کہ جب سب دیا ہے تو یہ بھی دے کے جان چھڑاؤ اور یہیں سے ایک نئی ابتدا ہوتی ہے بغیر پیسوں والی امپورٹ کی اور ہر مہینے کوئی نئی فرمائش اور ذہنی تناؤ چھٹانک بھر ساتھ دیا جاتا ہے۔ تنازعے بڑھتے ہیں اور بس بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
لڑکی کی اماں، ذرا سوچیں، آپ نے بچی کی شادی تو نہیں کی تھی، آپ نے تو اسے تیار کر کے بڑے محل والے خاندان کے سامنے پیش کیا تھا اور ڈیل یعنی تجارت کی تھی۔
لڑکے کی اماں، آپ بھی ذرا یاد کریں، آپ بیٹے کے سکون کی خاطر یا پھر کسی کی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر بیاہ کر گھر نہیں لائی تھیں، آپ تو جہیز کی لالچ میں اندھی ہو گئی تھیں اور لڑکی کے والدین کی پریشانی دیکھ کر آپ کی گردن میں سریا آ گیا تھا کیونکہ آپ کا تو بیٹا تھا نا۔ اس سب میں لڑکی ادھوری محبت لے کر یا تو عائشہ کی طرح خودکشی کر لیتی ہے یا پھر پوری زندگی طلاق کا دھبہ لیے معاشرے کے لیے گالی بن جاتی ہے۔
اور ہاں، لڑکا بھی اس معاملے پر پریشان ہوتا ہی ہے کہ آس پاس کے لوگ اسے تھپکی دے کر کہتے ہیں تم مرد ہو، اس سے بہت اچھا خاندان ملے گا۔ وہ پکا ہو جاتا ہے اور تعلق بچانے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ ایسے دو خاندان تباہ ہو جاتے ہیں۔
مگر کسی کو اس موضوع پر بات کرنا بھی پسند نہیں ہوتا کیونکہ شادی نہیں ہے، یہاں روح نہیں بلکہ مال کی تجارت ہوتی ہے، مگر قانونی طریقے سے۔
نوٹ: یہ بلاگ مصنفہ کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔