مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کی زبردستی مختصر کی جانے والی زندگی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور شاید بہت کچھ ابھی مزید لکھنا باقی بھی ہے۔ انہیں مارنے والوں کا شاید خیال تھا کہ ان کی موت سے ان کی کہانی ختم ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان کے اندر اور باہر ان کے دوست ان کی یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے کتابیں لکھ رہے ہیں۔ تازہ ترین کتاب اکسفورڈ یونیورسٹی میں بنی ان کی سہیلی وکٹوریہ سکوفیلڈ نے لکھی ہے جنہیں بے نظیر کے ساتھ 30 سالہ رفاقت کا دعویٰ ہے۔ اس کتاب کا نام ’آنسوؤں کی مہک – بےنظیر بھٹو کے ساتھ میری دوستی (فریگرینس آف ٹیرز ۔ مائے فرینڈشپ ود بےنظیر بھٹو) ہے۔
کراچی ادبی میلہ گذشتہ ہفتے کے اختتام پر منعقد ہوا تو ایک سیشن میں اس کتاب کی ورچوئل رونمائی بھی ہوئی۔ وکٹوریہ سکوفیلڈ کی یادداشتوں پر مبنی اس کتاب میں بے نظیر بھٹو کے آکسفورڈ جیسے پروقار تعلیمی ادارے میں چار سالوں کی کہانی سے لے کر ان کے سیاسی رہنما بننے تک کی داستان موجود ہے۔ وکٹوریہ برطانوی تاریخ دان اور مصنفہ ہیں۔
اس کتاب کا نام ’آنسوؤں کی مہک‘ کے استعارے پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اسے سندھی صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی کی نظم سے لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہ بھٹائی کی شاعری سے انہیں متعارف کروانے والی بےنظیر بھٹو ہی تھیں بلکہ ان کا اصرار تھا کہ یہ بےنظیر ہی تھیں جنہوں نے انہیں پاکستان سے متعارف کروایا۔ ’پاکستان اب میرا دوسرا گھر ہے۔‘
وکٹوریہ کا انٹرویو لندن میں ہی مقیم فرح درانی نے کیا۔ ایک سوال انہوں نے یہ پوچھا کہ آپ نے بےنظیر کی شادی کے فیصلے کو سیاسی قرار دیا تھا، اس کی وجہ کیا تھی؟ مصنفہ کا کہنا تھا کہ فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور کے خاتمے کے کوئی آثار نہیں تھے وہ مزید دس سال بھی اقتدار کے ساتھ چپکے رہ سکتے تھے لہذا بےنظیر نے شادی کرنے کا فیصلہ ذہنی اور جذباتی استحکام کے حصول کے لیے کیا تھا۔
آصف زرداری اور بےنظیر بھٹو کی منگنی 29 جولائی 1987 کو لندن میں ہوئی اور شادی منگنی کے تقریباً پانچ ماہ بعد 18 دسمبر 1987 کراچی میں ہوئی۔
تیس سال پر محیط کتاب لکھنے میں انہیں کیا مشکلات پیش آئیں اس بارے میں وکٹوریہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان سے اپنے والدین کو لکھے گئے خطوط تلاش کیے، چونکہ اس زمانے میں ٹیلیفون کم تھے لہذا ساری باتیں خطوط کے ذریعے ہی ہوتی تھیں۔ ’یہ خطوط دراصل ہاتھوں سے لکھی ہماری زندگیاں تھیں جو اب انٹرنیٹ کے زمانے میں ممکن نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آکسفورڈ میں بی بی مرحومہ کی چائے پارٹیاں بہت مشہور تھیں۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ بےنظیر کی شخصیت جوانی میں بھی کرشماتی تھی۔ ’وہ سٹوڈنٹ لائف میں بھی ہر کسی سے گھل مل جاتی تھیں۔ بڑی دوستانہ شخصیت تھی۔‘
1960 کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کی محض دو خواتین صدور رہی تھیں جس کے بعد بےنظیر صدر بنیں۔ انہوں نے آتے ہیں راک موسیقی متعارف کروائی اور صدر کے دفتر کے رنگ کو تبدیل کیا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد بےنظیر پاکستان 1977 میں واپس آئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک سیاسی بحران سے دوچار تھا۔ اگلے سال انہوں نے اپنی سہیلی وکٹوریہ کو بھی مدعو کیا جو ان کا پاکستان کا پہلا سفر ثابت ہوا۔
پاکستان میں آنے کے بعد بےنظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا تو چونکہ وکٹوریہ کی ٹائپنگ رفتار اچھی تھی انہوں نے پٹیشنیں اور دیگر دستاویزات تیار کرنے میں بی بی کی مدد کی۔
کتاب کے بارے میں اپنے رائے دیتے ہوئے بی بی سی کی بین الاقوامی نامہ نگار لیز ڈوسیٹ نے کہا کہ اس طرح کی تحریر بےنظیر کو انتہائی قریب سے جاننے والا شخص ہی کر سکتا ہے جیسا کہ وکٹوریہ نے کیا۔ ’وکٹوریہ بےنظیر کے روزانہ کے مشکل حالات میں ان کی وفادار دوست اور مبصر کے طور پر شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔‘
وکٹوریہ اس یادداشت سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے، کشمیر اور افغانستان پر بھی کتاب لکھ چکی ہیں۔
مغربی مصنف اس طرح کی کتابیں لکھنے میں دیر نہیں لگاتے لیکن ناہید خان اور صفدر عباسی جیسے قریب ترین ساتھیوں نے چپ کو زیادہ ترجیح دی ہے۔