لیاقت علی نے گذشتہ روز اوستہ محمد جانے کے لیے کوچ کا ٹکٹ لیا اور جمعرات کو علیٰ الصبح وہ کوچوں کے اڈے پر پہنچے، جہاں کچھ دیر انتظار کے بعد گاڑی نے سفر شروع کیا، لیکن کوئٹہ شہر سے باہر نکلنے کے بعد دشت میں انہیں ایک غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
لیاقت نے بتایا کہ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال تھی جب ہمیں یہاں روکا گیا اور معلوم ہوا کہ آگےشاہراہ بند ہے۔
لیاقت کے مطابق وہ سمجھے کہ شاید کسی حادثے کی وجہ سے شاہراہ بند ہے، لیکن جب وہ خود گاڑی سے اترے اور لوگوں سے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ کسانوں نے ہڑتال کر رکھی ہے اور یہ راستہ اب شام کو ہی کھلے گا۔
اس صورتحال کا سامنا صرف لیاقت کو ہی نہیں کرنا پڑا بلکہ اس شاہراہ پر مسافر کوچوں کی ایک طویل قطار موجود ہے، جن میں سوار افراد راستہ کھلنے کے منتظر ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے کسانوں اور زمینداروں کی نمائندہ تنظیم زمیندار ایکشن کمیٹی نے بجلی کی کم فراہمی اور سبسڈی نہ ملنے کے خلاف صوبے کی قومی شاہراہوں پر احتجاج کی کال دی تھی۔
اس کال پر کسانوں نے دارالحکومت کوئٹہ سے ملنے والی تمام قومی شاہراہوں، جن میں مستونگ سے ملنے والی لکپاس، دشت سے سپیزنڈ، پشین سے ملنے والی یارو کے مقام پر قومی شاہراہ کو جمعرات کی صبح آٹھ بجے سے بلاک کردیا۔
ہڑتال کے باعث قومی شاہراہوں پر شہر میں داخل اور جانے والے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں اور مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
’ناروا سلوک‘
کوئٹہ شہر سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے دشت میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر زمینداری سے وابستہ ہے۔
دشت کے رہائشی زمیندار نبی بخش کرد بھی کسانوں کے احتجاج میں شریک ہیں جن کا کہنا ہے کہ دیگر علاقوں کی نسبت ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔
نبی بخش کرد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس علاقے میں لوگ زیادہ متاثر ہیں، کیونکہ باقی صوبے میں لوگ چھ ہزار بل دیتے ہیں جبکہ ہم دس ہزار دیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’یہ ہمارے ساتھ ظلم ہے کہ زیادہ بل کے باوجود ہمیں بجلی فراہم نہیں کی جارہی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہاں کی سبسڈی بحال کرکے مطلوبہ بجلی فراہم کی جائے۔‘
بقول نبی بخش: ’اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام فیڈرز اوور لوڈ ہیں۔ 24 گھںٹوں میں ہمیں صرف دو گھنٹے بجلی دی جارہی ہے۔‘
زمینداروں نے بتایا کہ اس صورت حال کے باعث یہاں کاشت کی گئی گندم کی فصل تباہ ہوگئی ہے۔ اب صرف باغات بچ گئے ہیں، اگر ان کو بھی پانی نہ ملا تو ان کے پھل کو کیڑے لگ جائیں گے۔‘
واضح رہے کہ جہاں پورے بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ دشت کے علاقے میں پانی کی سطح ایک ہزار فٹ سے بارہ سو فٹ تک نیچے چلی گئی ہے۔
نبی بخش نے بتایا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو ایک طرف زیر زمین پانی کی سطح انتہائی حد تک کم ہوجائے گی اور دوسری طرف زمیندار بھی یہ شعبہ چھوڑ دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نبی بخش کے مطابق بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جو پورے ملک کو آٹھ مہینے تک پھل فراہم کرتا ہے۔ ’ہم پورا سال زمینوں اور باغات کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جس کے باعث یہاں سے اعلیٰ کوالٹی کے پھل اور دیگر فصلیں ملتی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارے ساتھ ہر سال ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے، جو اب ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔‘
ساتھ ہی نبی بخش نے دعویٰ کیا: ’کوئی مجھے یہ دکھا دے کہ حکومت نے یہاں دشت کے علاقے میں لوگوں کو پانی کی فراہمی کے لیے کوئی ٹیوب ویل لگایا ہو۔ ہمارے ہی ٹیوب ویل لوگوں کو پانی بھی فراہم کرتے ہیں۔‘
نبی بخش نے بتایا کہ دشت اسپلنجی اور آس پاس کے علاقوں میں دس ہزار سے زائد زمیندار ہیں، جنہیں پانی کی کمی اور طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ ہڑتال تو صرف ایک دن کے لیے تھی، لیکن اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو ہم نہ صرف تادم مرگ ہڑتال کریں گے بلکہ شاہراہوں کو بھی غیر معینہ مدت تک بند کردیں گے۔‘
ادھر کیسکو حکام کہتے ہیں کہ بلوں کی عدم ادائیگی اور بلوچستان حکومت کی جانب سے زرعی صارفین کے لیے سبسڈی کی مد میں بقایاجات ادا نہ کرنے پر کیسکو نے زرعی فیڈروں کو بجلی کی فراہمی یومیہ تین سے چار گھنٹے کردی تھی، تاہم صوبائی حکومت کی یقین دہانی کے بعد گذشتہ دو روز سے زرعی فیڈروں پر پرانے شیڈول کے مطابق بجلی بحال کرکے چھ گھنٹے کردیا گیا ہے اور اب معمول کے مطابق صوبے میں موجود تمام زرعی فیڈروں کو بجلی کی فراہمی جاری ہے۔
واضح رہے کہ مجموعی طور پر بلوچستان کے تمام زرعی صارفین کے ذمہ تقریباً 295 ارب روپے واجب الادا ہیں اور حکام کہتے ہیں کہ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کیسکوکے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ کیسکو بذات خود بجلی خریدنے اور پھر اسے فروخت کرنے والی ایک کمپنی ہے جو بغیر ادائیگی کسی کو بھی بجلی فراہم نہیں کرسکتی۔
زمیندار ایکشن کمیٹی کی کال پر قومی شاہراہوں کو بند کرنے علاوہ بعض علاقوں میں شڑ ڈاؤن ہڑتال بھی رہی اور بعض علاقوں میں بازار اور مارکیٹیں بھی بند رہیں۔