پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سویلین اور فوجی وسائل نقل وحمل کے شعبے میں ہونے والی ترقی اور تیل کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے ایران اور خطہ بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کا مرکزی نقطہ بنا رہا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران روس، برطانیہ اور امریکہ نے نازی جرمنی کو تیل کی دولت سے مالا مال ایرانی علاقوں تک پہنچنے سے روکنے کی خاطر ایک محاذ تشکیل دیا تھا۔ اس اتحاد کے تین سرکردہ رہنما سٹالن، روزویلٹ اور ونسٹن چرچل جنگ کے دنوں میں بھی تہران کے اندر مذاکرات کی میز سجایا کرتے تھے۔
ہٹلر کی شکست کے بعد روس نے ایران میں قدم جما لیے اور تہران کے ساتھ پیٹرولیم کے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے۔ بعد ازاں واشنگٹن اور لندن نے ماسکو۔تہران معاہدے ختم کروا کر روس کو خطے سے بیدخل کرایا۔
برطانیہ اور امریکہ کو دس برس بعد احساس ہوا کہ انتخابی عمل کے نتیجے میں ڈاکٹر مصدق کا ایرانی حکومت کی سربراہی تک پہنچنا دراصل بائیں بازو اور [اس وقت کے] سوویت یونین کے دوبارہ تہران داخلے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اسی خدشے کی بنا پر ڈاکٹر مصدق کا تختہ الٹ دیا گیا تاکہ وہاں بادشاہت کو تحفظ دیا جا سکے۔
امریکہ کو سوویت یونین کی نیت پر اس وقت مزید شک گزرا جب کریملن نے ایران کے ہمسایہ ملک افغانستان پر دسمبر 1979 میں حملہ کیا۔ حملہ ایران میں رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کے خاتمے کے 10 ماہ بعد کیا گیا۔ صورت حال دیکھ کر امریکہ، افغانون کی مدد سے سوویت یونین [روس] کا راستہ روکنے سات سمندر پار سے دوڑا چلا آیا۔
واشنگٹن کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ سوویت یونین، ایران پر تسلط جمانا چاہتا ہے کیونکہ گرم پانیوں اور تیل کی دولت تک رسائی کا خواب لے کر سفید ریچھ خطے پر حملہ آور ہو چکا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا جب چینیوں نے مشرق وسطیٰ، بالخصوص مغربی ایشیا اور مشرقی افریقہ، تک پاؤں پھیلانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ اپنی اس رغبت کو انھوں نے بھرپور اقتصادی تعاون کی حکمت عملی کا نام دیا، جسے آج ہم ’روڈ اینڈ بیلٹ‘ منصوبے کے طور پر جانتے ہیں۔
چین کا ایران سے جامع سٹرٹیجک معاہدہ راتوں رات طے نہیں پایا۔
چینی صدر کے 2016 میں دورہ تہران کے دوران اس پر مذاکرات کا آغاز اور پھر اسے گذشتہ برس امریکی میڈیا کے ذریعے مشتہر کیا گیا۔ معاہدے پر دستخط کے لیے دونوں ملکوں نے جس وقت کا انتخاب کیا گیا ہے اس نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
خفیہ معاہدے کی اب تک سامنے آنے والی تفصیل اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کی آڑ میں ہونے والی ’ڈیل‘ سے بہت بڑے مقاصد حاصل کرنا مقصود ہیں جنہیں کسی مصلحت کی بنا پر ابھی سامنے نہیں لایا جا رہا۔
معاہدے پر دستخط دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی نصف سنچری مکمل ہونے پر ہونا اپنی جگہ اہم ہے۔ چین، ایران کا پرانا اتحادی اور تجارتی شریک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حالیہ چند برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم 20 ارب ڈالر تھا جبکہ 2016 میں تہران اور بیجنگ نے دس برسوں کے دوران تجارت کو دس گنا بڑھا کر 600 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق کیا۔
عجیب اتفاق ہے کہ واشنگٹن کے دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور امریکہ نے ان پر کڑی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ چین کے مخالفین کا کہنا ہے کہ باہمی تعاون کے اس معاہدے کے ذریعے بیجنگ، مشرق وسطیٰ میں اپنا رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔
چین کہتا ہے کہ ’تعاون کے معاہدے کا مقصد کسی تیسرے فریق یا ملک کو نشانہ بنانا نہیں۔‘ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژھو لیجیان کے بقول ’تعاون کے منصوبے کا مقصد دونوں ملکوں کے عوامی سطح پر روابط کو مضبوط بنانا ہے تاکہ مستقبل کا وسیع البنیاد فریم ورک تیار کیا جائے۔‘
امریکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ’لیک‘ کیے جانے والے 18 صفحات پر مشتمل خفیہ معاہدے کی تفصلات ہوش ربا ہیں۔ اس میں اسلحہ سازی سے لے کر کچرا اٹھانے تک کے شعبوں میں باہمی تعاون کی ایسی راہیں سجھائی گئی ہیں کہ جنہیں پڑھ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔
ایران ۔ چین معاہدے کے اقتصادی خدوخال
معاشی تعاون کے ضمن میں یہ معاہدہ تیل، گیس اور پیٹروکیمیکل منصوعات ذخیرہ کے لیے ویئر ہاؤسز کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔ ایرانی خام تیل کی چین کو فروخت کا پائیدار منصوبہ بھی اسی معاہدے کا حصہ ہے۔
چینی کمپنیاں بجلی، توانائی، پانی، سینی ٹیشن منصوبوں میں سرمایہ کاری کے ساتھ ان کی تکمیل میں مالی معاونت بھی فراہم کریں گی۔
دستاویز کے مطابق ایران کے مشرقی اور مغربی حصوں کو ریلوے لائن کے ذریعے ملایا جائے گا جس سے پاکستان، ایران، عراق اور شام کے درمیان ریل کی سہولت میسر آئے گی۔
ایران کے جنوبی اور شمالی حصوں میں بھی ریلوے لائن بچھا کر بحیرہ کسپیئن اور بحیرہ عمان کو ملایا جائے گا۔ علاوہ ازیں ہوائی اڈوں کی تعمیر بھی منصوبے کے تحت مکمل ہو گی۔
بحیرہ عمان کے ساحل مکران اور ایران میں جسک بندرگاہ کو ترقی دی جائے گی اور وہاں صنعتی گاؤں قائم کیا جائے گا جس میں تیل صاف کرنے کے منصوبے اور پیٹرو کیمیکل صنعتوں کا جال بچھایا جائے گا۔ بحیرہ عمان کے قریب ایران کے جنوب مشرقی علاقے میں ’سمارٹ سٹی‘ بنایا جائے گا۔
چینی کمپنیوں کو ایران کے ٹیکس فری تجارتی زونز میں سرمایہ لگانے کی ترغیب دی جائے گی۔ یہ زونز ایران کے جنوبی جزیرہ قشم، خلیج کے شمال مغرب میں اروند ریجن اور شمال مغربی ایران کے علاقے ماکو میں قائم کیے جائیں گے۔ سیاحت کے فروغ کی خاطر ایران میں موجود جزیروں کو بھی ترقی دی جائے گی۔
معاہدے کے مطابق جسک اور چابہار کی ایرانی بندرگاہوں میں پیٹروکیمیکل صنعت کے طویل المدت منصوبوں میں چین سرمایہ کاری کرے گا۔ دونوں ملک کسی تیسرے مقام پر مشترکہ تجارتی زون بھی تشکیل دیں گے۔ کاروں کی تیاری اور دونوں ملکوں کی آٹو انڈسٹری کے لیے صنعتی ٹاؤن کا قیام بھی منصوبے کا اہم حصہ ہے۔
دونوں ملک تانبے، لوہا، سٹیل کی کانوں اور دھاتوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیں گے۔ جہاز سازی، گھریلو فرنیچر اور تہران میٹرو جیسے منصوبے بھی معاہدے کا حصہ ہیں، تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ کی بحالی بھی باہمی تعاون کے معاہدے کا حصہ ہو گی۔ زراعت، ماہی گیری، تعلیم، نالج ایکسچینج پروگرام، صحت، معلومات اور فائیو جی نیٹ ورک بھی اسی منصوبے کے تحت تیار کیے جائیں گے۔
پاکستان، بھارت خدشات
ایران میں چین کے وسیع البنیاد معاشی تعاون کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ چین کی اقتصادی راہ داری منصوبے [سی پیک] کی مالیت جامع سٹرٹیجک معاہدے کے اقتصادی حجم سے بہت کم ہے۔ تاہم پاک۔چین تعاون اور دوستی کے شاندار ماضی کے جلو اس تفاوت پر ملک میں تنقید کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔
دوسری جانب بھارت ایران ۔ چین معاہدے پر اس لیے پریشان دکھائی دیتا ہے کہ اس نے امریکی دباؤ میں آ کر ایران گیس پائپ لائن منصوبہ سے علیحدگی اختیار کر کے سونے کی چڑیا ہاتھ سے گنوا دی اور اب کف افسوس ملنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت، ایران سے تیل کی درآمد تقریبا ختم کر چکا ہے جب کہ چند سال قبل تک وہ بھارت کو تیل فراہم کرنے والا اہم ملک تھا۔اس کے علاوہ ایران میں چینی سرمایہ کاری کے نقصان کا بھی بھارت کو سامنا ہو گا۔
بھارت، ایران میں چابہار بندرگاہ کو فروغ دینا چاہتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پاکستان میں واقع گوادر بندرگاہ کا جواب ہے۔ چابہار تجارتی اور سٹریٹیجک لحاظ سے بھارت کے لیے بھی اہم ہے۔ ایسی صورت حال میں چین کی موجودگی سے بھارتی سرمایہ کاری کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔
گیم چینجر معاہدہ
معاہدے کے اقتصادی پہلو کی جزیات روبعمل آنے کے بعد ایران کیا سے کیا ہو جائے گا؟ مجوزہ ترقی کے علاقے اور عالمی تنازعات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ان سب سوالوں کے جواب سے قطع نظر یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ چینی اژدہا [ڈریگن] رینگتا رینگتا خطے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس نے پاکستان کو امریکہ کے ایک اتحادی سے چین کی بڑی منڈی اور پارٹنر بنا دیا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی کے ایلیٹ دستے خلیج عدن پہنچ کر جبوتی میں فوجی اڈا قائم کر چکے ہیں تاکہ وہ افریقہ رسائی کے لیے استعمال ہونے والا سمندری راستہ محفوظ بنا سکیں۔
معاہدے کے مطابق چین، ایران کی فوجی اور سکیورٹی صلاحیت میں اضافے کے لیے تعاون فراہم کرنے کا پابند ہے۔ یہ معاہدہ، چین کو ایرانی علاقے میں 5000 سکیورٹی اور فوجی اہلکار تعینات کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ خطے کے کئی ملک تہران کی مسلح مہم جوئی کے شاکی ہیں۔ چینی فوجی اہلکاروں کی ایران میں تعیناتی خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ ایران اس وقت عراق، شام، لبنان، غزہ اور یمن میں پانچ جنگیں لڑ رہا ہے۔
جی سی سی ممالک اور سعودی عرب
اس صورت حال کے باوجود چینی حکومت کئی برسوں سے خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو مستحکم کر رہی ہے۔ بیجنگ نے متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور ان کے سعودی عرب کے ساتھ اچھے ورکنگ تعلقات ہیں۔
معاہدے کے اعلان سے قبل چینی وزیر خارجہ وانگ یی کا دورہ سعودی عرب انہی اچھے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ العربیہ نیوز چینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وانگ یی نے خلیجی ملکوں اور ایران کے ساتھ پنج جہتی ’امن اقدام‘ کا اعلان کیا، جس کے تحت بین الاقوامی جہاز رانی کا تحفظ اور خلیج میں مسلح جارحیت کے عفریت پر قابو پانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
بعض تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ’امن اقدام‘ سے خلیج کے عرب ممالک کے دارالحکومتوں میں خطرے کا احساس کم نہیں ہو گا کیونکہ یہ ممالک ایران کو عدم استحکام کا ایک بہت بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں اور بیجنگ کے ساتھ اس کا اتحاد تہران اور قم میں سخت گیر سوچ کو مزید تقویت بخشے گا۔
بیجنگ کی ایران نوازی نے اسرائیل کی نیندیں بھی حرام کر رکھی ہیں۔ ایران کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے روس اور چین، دونوں تہران کے مؤقف کی حمایت میں خم ٹھونک کر کھڑے ہیں جو دونوں ملکوں پر امریکی پابندیوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
اب دیکھنا یہ کہ امریکہ، چین اور تہران کو سبق سکھانے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرتا ہے؟ ہمہ جہت پابندیاں تو بیجنگ اور تہران کا اب تک بال بیکا نہیں کر سکیں۔