بھارت نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ مشرقی لداخ کے علاقوں سے اپنی فوج پیچھے ہٹانے میں جلدی کرے۔
بھارت کا مزید کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی متنازع سرحد پر طویل عرصے تک فوج کی تعیناتی کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے اسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی سلسلے کے بعد فروری سے بھارت اور چین کے لداخ کے علاقے پنگونگ جھیل کے کنارے پر موجود فوجی اپنی پوزیشنز سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
سینئیر بھارتی اور چینی فوجی کمانڈروں نے رواں سال 12 مارچ کو آخری ملاقات کی تھی۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی گذشتہ ماہ ٹیلی کانفرنس کے ذریعے مذاکرات کیے تھے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم بگچی کے مطابق: ’بھارت کو امید ہے کہ چین ہمارے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ باقی رہ جانے والے علاقوں میں فوجی سرگرمیاں روکنے کو جلد سے جلد یقینی بنایا جا سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اس سے دونوں فریقین کو مشرقی لداخ میں فوجی سرگرمیوں کے خاتمے پر غور کرنے کی اجازت ملے گی کیونکہ یہی امن و سکون کی بحالی کی بنیاد بنے گی اور ہمارے دوطرفہ تعلقات کی بہتری کے لیے مواقع فراہم کرے گی۔‘
چین کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ سال مئی میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان جھڑپوں کے کئی دور ہوئے تھے اور کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی جب بھارتی اور چینی فوجیوں نے ایک دوسرے کی بار بار کی جانے والی زبانی تنبیہ کو نظرانداز کرنے کے بعد ایک دوسرے پر پتھر بازی کے علاوہ ہاتھا پائی بھی کی تھی۔
جون تک کشیدگی کا یہ سلسلہ بڑھتے ہوئے شمال میں دیپسانگ اور وادی گلوان تک پھیل گیا تھا۔ جہاں بھارت نے متنازع سرحد کے ساتھ ایک پختہ فوجی سڑک تعمیر کی تھی۔ شدید جھڑپوں کے دوران پتھر بازی اور مکا بازی سے بیس بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ چین نے چھ ماہ بعد ان جھڑپوں میں اپنے چار فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا تھا۔
جون کی جھڑپوں کے فوری بعد فوجی وادی گلوان سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اب انہوں نے پنگونگ جھیل کے علاقے سے بھی ایسا ہی کیا ہے لیکن ڈیپسانگ اور دو مزید مقامات، جن میں گوگرا اور ہاٹ سپرنگز شامل ہیں، میں دونوں افواج ابھی تک ایک دوسرے کے سامنے مورچہ زن ہیں۔
دونوں فریقین نے 1962 میں ایک سرحدی جنگ لڑی تھی، جو لداخ تک پھیل گئی تھی، جس کے بعد دونوں ممالک کو صلح کرنی پڑی تھی۔ تب سے دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جبکہ اکثر اوقات یہاں فوجی بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔
چین اور بھارت کے درمیان موجود ایکچوئل لائن آف کنٹرول لداخ سے لے کر بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش تک پھیلی ہوئی ہے۔ چین اس ریاست کو مکمل طور پر اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔
بھارت کے مطابق ڈی فیکٹو بارڈر تین ہزار چار سو 88 کلومیٹر (2،167 میل) طویل ہے جبکہ چین کا کہنا ہے کہ یہ اس سے کافی کم ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول ممالک کے دعوؤں کی بجائے جسمانی کنٹرول کے علاقوں کو تقسیم کرتی ہے۔