سندھ کی کالعدم تنظیم سندھودیش ریولوشنری آرمی ( ایس آر اے) کے جولائی 2020 میں بلوچ شدت پسند تنظیموں کے مسلح کالعدم اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) میں شامل ہونے کے بعد حکام کو دونوں صوبوں میں ان کے درمیان زیادہ تعاون کے اشارے مل رہے ہیں۔
پاکستان میں شدت پسند تنظیموں پر کام کرنے والے محققین کے مطابق ایس آر اے کے نہ صرف سندھ کے اندر حملوں میں اضافہ ہوا بلکہ ماضی میں معمولی نوعیت کے حملے کرنے والی اس تنظیم کی سرگرمیوں میں تخریب کاری کا عنصر بڑھا ہے۔
شدت پسند گروہوں پر تحقیق کرنے والے صحافی و محقق ضیا الرحمٰن نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سندھ میں ایس آر اے کے حملوں میں شدت کو براس میں شمولیت سے جوڑتے ہیں۔
’براس میں شمولیت کے بعد سندھ کی چند شدت پسند تنظیموں میں سے ایک ایس آر اے کو نئی طاقت ملی ہے۔‘
براس یا بلوچ نیشنل فریڈم موومنٹ 2018 میں قائم ہوئی۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق براس بنانے کا بنیادی خیال کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے دیا تھا۔
اس اتحاد میں چار بلوچ مزاحمتی کالعدم تنظیمیں بی ایل ایف ۔ بشیر زیب بلوچ گروپ، بی ایل ایف، بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے ۔ گلزار امام گروپ) اور بلوچ ریپبلکن گارڈز یا بی آر جی شامل ہیں۔
سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ کنٹمپریری ریسرچ اسلام آباد کے ایک تحقیقی پیپر کے مطابق بی ایل اے ۔ بشیر زیب بلوچ گروپ نے کراچی میں رینجرز اہلکاروں پر حملے کرنے کے لیے ایس آر اے کو مبینہ طور پر دستی بم فراہم کیے۔
ضیا الرحمٰن کے مطابق ماضی میں ایس آر اے اور سندھ لیبریشن آرمی (ایس ایل اے) ریل کی پٹریوں، سرکاری املاک یا بینکوں کو نقصان پہنچانے کی غرض سے معمولی نوعیت کے دھماکے کرتے تھے اور ان تنظیموں کی کوشش ہوتی تھی کہ حملوں میں انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔
’مگر براس کے ساتھ اتحاد کے بعد اس تنظیم (ایس آر اے) کے حملوں کے طریقوں میں تبدیلی آئی ہے اور وہ باقاعدہ تخریبی سرگرمیوں پر اتر آئے ہیں، جس سے نظرآ رہا ہے کہ اس اتحاد میں شمولیت کے بعد تنظیم کے کارکنوں نے باقاعدہ تخریبی کارروائیوں کی تربیت حاصل کی۔‘
انہوں نے مزید کہا ’قانون نافذ کرنے والے ادارے دعویٰ کر رہے ہیں کہ الطاف حسین کی سربراہی میں متحدہ قومی موومنٹ ۔ لندن بھی بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند گروہوں کے اتحاد میں شامل ہوئی ہے۔‘
وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا اللہ لانگو نے چند روز قبل کراچی میں صحافیوں کے ساتھ ایک گفتگو میں تسلیم کیا تھا کہ سندھ اور اس کے پڑوسی صوبے بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں نے حال ہی میں رابطے اور ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے اور ایک غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت وہ دونوں صوبوں میں مشترکہ طور پر سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘تاہم حال ہی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ (سندھ اور بلوچستان) دونوں صوبوں میں دہشت گرد گروہ اپنے مشترکہ ہدف کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں، انہوں نے چند کارروائیاں کی ہیں تاہم بڑی حد تک وہ ہماری خفیہ ایجنسیز اور سکیورٹی فورسز کی وجہ سے ناکام رہے ہیں۔‘
حال ہی میں سندھ میں رینجرز اور چینی شہریوں پر حملے کیے گئے جس کی ذمہ داری ایس آر اے نے قبول کی تھی۔
سندھ پولیس کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ پولیس نے ان حملوں کے بعد بڑی تعداد میں اس کالعدم تنظیم کے کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔
عسکریت پسندی اور سائبر سکیورٹی پر تحقیق کرنے والے محقق فہد نبیل نے بلوچ اور سندھی عسکریت پسندوں پر سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ کنٹمپریری ریسرچ اسلام آباد کے لیے کئی تحقیقی پیپر لکھے ہیں۔
فہد کے مطابق براس اتحاد بننے سے پہلے بھی بلوچ شدت پسند تنظیمیں کراچی میں حملے کرتی رہی ہیں۔ ’میرے حساب سے حالیہ دنوں میں کراچی کے علاقے کورنگی میں رینجرز پر بلوچ تنظیموں یا ان کے اتحادیوں کی جانب سے ہونے والا حملہ 2005 کے بعد کراچی میں 26واں ایسا حملہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ براس کی ایس آر اے کے ساتھ الحاق کے بعد بلوچ تنظیموں کو کراچی میں مقامی سطح پر مدد مل رہی ہے۔
اس سوال پر کہ براس میں شامل تنظیمیں کراچی میں حملے کیوں کر رہی ہیں کے جواب میں فہد نے کہا کہ کراچی ایک میٹرو پولیٹن شہر ہے اور یہاں پر ایک چھوٹا حملہ کرنے کے بعد بھی ان تنظیموں کو نہ صرف قومی بلکہ عالمی میڈیا میں کوریج ملتی ہے، جو اصل میں ان تنظیموں کا مقصد ہے تاکہ ان کا موقف عالمی برادری تک پہنچ سکے۔
فہد کے مطابق ان شدت پسند گروپوں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والی تمام ایجنسیوں اور اداروں کی ایک مشترکہ ٹاسک فورس بنائی جائے۔
بلوچ تنظیموں سے متاثر سندھی شدت پسند گروپ
بلوچ شدت پسند تنظیموں سے متاثر ہو کر سندھ کے علیحدگی پسند گروپوں نے بھی گروپ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ایس آر اے کا قیام 2010 میں کیا گیا۔ اس گروپ نے پہلی بار سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ٹرین کی پٹریوں پر حملہ کرنے کے بعد وہاں ایک پمفلٹ پھینک کر دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سندھ میں کئی علیحدگی پسند تنظیمیں مقبول سندھی قوم پرست رہنما غلام مرتضیٰ سید المعروف جی ایم سید کی پارٹی جئے سندھ قومی محاذ (جسقم) سے نکلی ہیں اور یہ تنظیمیں اپنے نام کے ساتھ ’جئے سندھ‘ لگاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان میں اکثریت جی ایم سید کے عدم تشدد کے نظریے پر کام کرتے ہوئے پرامن طریقے سے سندھ کی آزادی چاہتی ہیں۔
تاہم تاحال جئے سندھ کے نام سے صرف دو ہی گروپ عسکریت پسندی میں ملوث پائے گئے ہیں، ایک جئے سندھ متحدہ محاذ۔ شفیع برفت گروپ کے زیر انتظام ایس ایل اے اور دوسرا ایس آر اے، اسے بھی شفیع برفت نے فرضی نام دریا خان کے نام سے بنایا تھا۔
مقامی اخبارات کے مطابق دریا خان اصل میں شفیع برفت کا دوسرا نام ہے۔ بعد میں جامشورو کے رہائشی اور تنظیم کے ایک اور رہنما سید اصغر شاہ نے، جو خود کو کمانڈر صوفی شاہ عنایت کہلاتے ہیں، شفیع برفت سے چپقلش کے بعد ایس آر اے کی کمانڈ سنبھال لی اور اس وقت وہی اس تنظیم کو چلا رہے ہیں۔
ایس آر اے نے 2013 میں کراچی میں چینی سفارت خانے کے باہر دھماکے، 2016 میں کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجینیئر کی گاڑی کو نشانہ بنانے کے علاوہ سکھر کے قریب سی پیک منصوبے کے اہلکاروں پر حملے کی بھی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس کے علاوہ کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ پر کیے گئے حملوں کی ذمہ داری بھی اس تنطیم نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستان بھر میں سکیورٹی فورسز نے شدت پسند تنظیموں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کرکے انہیں شدید نقصان پہنچایا ہے لیکن بعض تنظیمیں اب بھی بڑے محدود پیمانے پر سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔