پاکستان میں حکومت کی مبینہ میڈیا سینسر شپ میں سختی آنے کے بعد بعض صحافیوں نے حالات حاضرہ پر اپنی رائے اور بعض اوقات کوئی خبر دینے کے لیے آن لائن ویڈیو پلیٹ فارم یوٹیوب کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔
عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے معروف صحافی اور اینکر نجم سیٹھی جس نیوز چینل پر آخری بار کام کر رہے تھے، اسے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ان کے شو کے حوالے سے کئی بار وارننگ دی۔
اپریل 2019 میں دیے گئے انتباہ میں کہا گیا کہ اگر نجم سیٹھی نے وزیراعظم کے بارے میں ’جعلی خبر‘ پھیلانے پر معافی نہ مانگی تو چینل پر پابندی لگا کر اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔
پیمرا نے یہ نہیں بتایا کہ اسے کون سی خبر جھوٹی لگی لیکن اس نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کی جانب سے پیمرا کونسل میں دائر شکایات کے بعد نوٹس بھیج رہی ہے۔
Kindly let us know which statement Imran Khan finds untrue and objectionable. Also, very strange that you did not give us an opportunity to defend this statement! In fact, what if it turns out to be true later? Will you pay us Rs 10 lacs? pic.twitter.com/mV3xYtcl9Z
— Najam Sethi (@najamsethi) April 26, 2019
20-2019 میں نیوز چینل ’چینل 24‘ کی نشریات پر چار مرتبہ پابندی لگائی گئی، جس کے بعد نجم سیٹھی کو پتہ چل گیا کہ اب ان کے ٹاک شو ’سیٹھی سے سوال‘ کو یوٹیوب پر منتقل کرنے کا وقت آگیا ہے جہاں اس وقت ان کے سبسکرائبرز کی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے۔
نجم سیٹھی نے اپنا پروگرام یوٹیوب پر کیوں منتقل کیا؟ اس حوالے سے عرب نیوز کی جانب سے ٹیلی فون پر پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’2019 میں حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے مختلف چینلوں نے مجھے پروگرام دینے سے گریز کرنا شروع کر دیا۔
انہوں نے کہا یوٹیوب کا پلیٹ فارم سینسرشپ سے بچتے ہوئے تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
حقیقت میں نجم سیٹھی ان متعدد پاکستانی صحافیوں میں شامل ہیں جنہوں نے انٹرنیٹ خاص طور پر یوٹیوب کا سہارا لیا۔
ایڈیٹرز اور رپورٹرز اس صورت حال کو میڈیا کے خلاف بڑھتا ہوا کریک ڈاؤن قرار دیتے ہیں۔ صحافیوں کو شکایت ہے کہ ایڈیٹروں اور پروڈیوسروں کو براہ راست ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو نمایاں نہ کریں یا ایسی خبریں نہ چلائیں جن میں حکومت یا فوج پر تنقید کی گئی ہو۔
اس حوالے سے ٹیلی ویژن نشریات پر پابندی لگائی گئی، اخباروں کی ترسیل روکی گئی اور مخالفت کرنے والے اخبارات کی اشتہارات سے ہونے والی آمدن کو نشانہ بنایا گیا۔
صرف 2018 میں تین ہزار سے زیادہ صحافی ملازمت سے محروم ہوئے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یوجے) کے مطابق 2018 کے بعد مزید ہزاروں صحافیوں کو برطرف کیا گیا۔
نیوٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز محمد عثمان کہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت آنے کے بعد نیوز چینلوں کے سرکاری اشتہارات میں 50 فیصد کمی کر دی گئی۔
دو بڑے چینلوں کی سینیئر انتظامیہ میں شامل دو دوسرے صحافیوں نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے۔
سابق وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے اس حوالے سے حکومت پر ہونے والی تنقید کے جواب میں 2019 میں کہا تھا کہ پاکستانی میڈیا ہاؤسز کو سرکاری اشتہارات پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنے کاروباری ڈھانچے کو تبدیل کرنا چاہیے۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق پیمرا نے اس خبر پر تبصرے کے لیے کیے گئے پیغامات کا جواب نہیں دیا لیکن حکومتی سینیٹر شبلی فراز نے ملک میں سینسرشپ کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے عرب نیوز کو بتایا ’پاکستان میں جیسا بھی ہو میڈیا سینسرشپ کا کوئی تصور موجود نہیں۔ خواہ وہ سیاست ہو،معیشت یا کوئی دوسرا شعبہ پاکستان میں میڈیا کو رپورٹ کرنے میں مکمل آزادی حاصل ہے۔'
تاہم مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں کو اس دعوے سے اختلاف ہے۔
چار جون، 2018 کو فوج کے اس وقت کے ترجمان میجرجنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کے دوران چند گرافکس دکھائے جن میں بعض بڑے صحافیوں کے اکاؤنٹس سے ٹوئٹر پر مبینہ ٹرولنگ دکھائی گئی تھی۔
عسکری ترجمان نے کہا کہ ان اکاؤنٹس سے ملک اور فوج مخالف پروپیگنڈا شیئر کیا گیا۔ ان صحافیوں میں مطیع اللہ جان کا نام بھی شامل تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعد میں قیاس آرائیاں کی گئیں کہ انہیں فوج مخالف نظریات پر ملازمت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس طرح انہوں نے بھی یوٹیوب چینل شروع کر دیا۔
یوٹیوب کی جانب سے 2019 میں لیے آن لائن جائزے کے مطابق 73 فیصد پاکستانیوں نے یوٹیوب دیکھا۔ 78فیصد پاکستانی شہریوں نے کہا ہے کہ کوئی بھی ویڈیو دیکھنے کے لیے ان کا پہلا سٹاپ یوٹیوب ہوتا ہے۔
سروے کے مطابق پاکستان میں یوٹیوب کے صارفین جو مواد دیکھتے ہیں ان میں خبریں آٹھ سرفہرست کیٹگریز میں شامل ہیں۔
صحافی عمران شفقت کے بقول: ’پاکستانی صحافیوں کے لیے یوٹیوب ایک قابل بھروسہ آپشن ہے۔ خاص طور پر سینسرشپ کے ماحول میں اس سے انہیں ناظرین تک رسائی ملتی ہے۔‘