پاکستانی دفتر خارجہ نے برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو 21 ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس پر نظرثانی کی جائے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں برطانیہ نے پاکستان کو 21 ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ہائی رسک ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 15 واں نمبر ہے اور اس میں پاکستان کے علاوہ شام، یوگنڈا، یمن اور زمبابوے بھی شامل ہیں۔
برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت جیسے مسائل سے دوچار ممالک کو اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔
برطانوی رپورٹ کے مطابق ٹیکس کنٹرول کا نہ ہونا، دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے مسائل سے دوچار ملک خطرہ ہوسکتے ہیں۔
اس معاملے پر ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو فہرست میں شامل کرنا حقائق کے منافی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں اس وقت اینٹی منی لانڈرنگ کا نظام انتہائی متحرک ہے اور گذشتہ دو برسوں میں پاکستان نے انسداد منی لانڈرنگ کے لیے غیرمعمولی اقدامات کیے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زاہد حفیظ کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی میں مالی معاونت کے انسداد کے لیے بھی متعدد انتظامی، قانونی اور عدالتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور یورپی یونین کے ساتھ بھی شئیر کیا گیا اور ایف اے ٹی ایف اور یورپی یونین نے پاکستان کے اقدامات کو تسلیم بھی کیا ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ’ایف اے ٹی ایف کے 27 میں سے 24 نکات پر عمل پاکستان کے عزم کا اظہار ہے جبکہ برطانیہ کا یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ برطانوی حکومت کی دسمبر 2020 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان غیر قانونی رقوم کا تبادلہ تاحال جاری ہے۔
ہائی رسک ممالک کے تعین کی نئی تعریف کے بعد برطانیہ میں 26 مارچ سے ’منی لانڈرنگ اینڈ ٹیرراسٹ فنانسنگ ریگولیشن2021‘ نافذ العمل ہے۔ اس سے قبل ہائی رسک ممالک کی فہرست یورپی یونین نے جاری کی تھی، جس میں پاکستان کا نام شامل تھا، لیکن برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد برطانیہ نے 21 ہائی رسک ممالک کی اپنی فہرست جاری کی ہے جس میں پاکستان کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مجرم غیر قانونی طریقے سے رقم برطانیہ منتقل کرکے برطانیہ میں قیمتی پراپرٹی خرید رہے ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان کا نام 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔