آج سے تقریباً 109 برس قبل ایک بحری جہاز شمالی بحر اوقیانوس میں رواں دواں تھا کہ رات ساڑھے 11 بجے کے قریب برفانی تودے سے ٹکرا گیا۔ جہاز میں عملے سمیت 2224 افراد سوار تھے جن میں سے ڈیڑھ ہزار سے زائد موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے۔
اس افسوس ناک حادثے کو تاریخ کے صفحات سے نکال کر ہماری زندگی کا جیتا جاگتا حصہ بنانے میں بنیادی کردار جیمز کیمرون کی 1997 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ٹائٹینک‘ کا ہے۔
فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’یہ محض کہانی نہیں بلکہ حقیقی لوگوں کے ساتھ حقیقی زندگی میں پیش آنے والا ایک حادثہ تھا، جس میں واقعی موت زندگی کو نگل گئی۔ مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ شاید ہی بعد میں کوئی اس موضوع پر فلم بنائے، اس لیے میری ذمہ داری ہے کہ اصل سے قریب تر رہ کر اس کا جذباتی تاثر پوری شدت کے ساتھ پردے پر اتاروں۔‘
جہاں تک جذباتی تاثر کی بات ہے تو شاید ہی فلم دیکھتے ہوئے کسی شخص کی دھڑکنیں ’ٹائٹینک‘ کے ساتھ نہ ڈوبی ہوں، لیکن کچھ ایسی چیزیں ضرور فلم کا حصہ بنیں جن کا اصل سے تعلق نہیں۔ آئیے ایسی ہی چند چیزوں کا ذکر کرتے ہیں۔
جیک اور روز کی محبت
اگر آپ ’ٹائٹینک‘ کے ڈوبنے کا احوال تاریخی کتابوں سے پڑھتے تو یقیناً ایک دیوانہ وار محبت کی کہانی سے محروم رہتے۔ فلم میں جیک اور روز کے درمیان جو کچھ ہوا وہ اصل میں نہیں ہوا تھا۔ جیمز کیمرون نے کہانی سے ہماری جذباتی وابستگی استوار کرنے کے لیے محبت کا سہارا لیا۔ بھلے یہ واقعاتی سچائی نہ سہی جذباتی سچائی ضرور بنی۔
کبھی نہ ڈوبنے والا جہاز
فلم کے ابتدائی مناظر میں ایک جگہ روز کی ماں کہتی ہیں: ’تو یہ وہ جہاز ہے جس کے بارے میں سنا ہے کبھی نہیں ڈوب سکتا۔‘ ایسا دعویٰ کبھی کیا ہی نہیں گیا تھا لیکن فلم کی وجہ سے یہ دیومالائی سچ کا روپ دھار چکا ہے اور لوگ اس دعوے کو حقیقت پر مبنی سمجھتے ہیں۔
مرڈوک کی خودکشی
جہاز ڈوب رہا ہے اور زندہ بچنے کی مدھم سی امید چند حفاظتی کشتیوں کی صورت میں موجود ہے۔ ایسے میں ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ پہلے سوار ہو سکے۔ گنجائش کا خیال نہ رکھا جائے تو کوئی بھی نہیں بچ سکتا اس لیے صورت حال قابو میں رکھنے کے لیے ایک آفیسر پستول تانے لوگوں کو روکتے ہیں۔ یہ ولیئم مک ماسٹر مرڈوک تھے، جنہیں ان کے آبائی شہر میں آج بھی ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی انسان دوستی اور فرض شناسی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی کہ وہ اپنی پرواہ کیے بغیر باقی لوگوں کی زندگی بچاتے ہوئے ڈوب گئے ورنہ وہ کسی حفاظتی کشتی پر سوار ہو کر بچ بھی سکتے تھے۔
فلم میں جب دو مسافر ان کے روکنے پر نہیں رکتے تو وہ فائر کر دیتے ہیں، جس سے ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ مرڈوک کو فوراً پشیمانی ہوتی ہے اور وہ خود کو گولی سے اڑا دیتے ہیں۔ یہ حقیقت سے مختلف نہیں بالکل برعکس ہے۔ بعد میں جیمز کیمرون نے غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے باقاعدہ معافی مانگی۔
وائلن پر بجنے والا آخری گیت
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ٹائٹینک‘ ایک پوری دنیا تھی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس میں موسیقاروں کا طائفہ شامل نہ ہوتا۔ لیکن یہ بات آج تک متنازع ہے کہ فلم کے آخر میں بجایا گیا گیت Nearer My God To Thee کیا واقعی ’ٹائٹینک‘ ڈوبتے ہوئے بجایا گیا تھا؟
اس حادثے میں بچنے والے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ یہ گیت نہیں تھا۔ دراصل یہ ’ٹائٹینک‘ کے حادثے پر بننے والی مستند ترین فلم ’اے نائٹ ٹو ریممبر‘ میں شامل تھا، جسے جیمز کیمرون نے بھی اپنی فلم کا حصہ بنا لیا۔
تاروں بھرا آسمان
فلم کے آخری مناظر میں ’ٹائٹینک‘ ڈوبنے کے بعد ایک جگہ روز تاروں بھرے آسمان کی طرف دیکھتی ہے لیکن 2019 میں جب فلم کا تھری ڈی ورژن پیش کیا گیا تو اس منظر میں آسمان تبدیل تھا۔
ہوا یہ کہ ماہر فلکیات اور سائنس دان نیل ڈی گراس ٹائسن نے جیمز کیمرون کو ایک ای میل کی اور بتایا کہ 1912 میں جس وقت بحر اوقیانوس میں جہاز ڈوبا تب رات مختلف تھی۔ جیمز نے مزید تفصیلات طلب کیں اور تھری ڈی ورژن میں اسے حقیقت سے قریب تر کر دیا۔ بھئی یہ ماہر فلکیات آسمان کو ویسی باریک بینی سے دیکھتے ہیں جیسے ہم آپ جیک اور روز کے رومانوی مناظر کو۔
تھامس اینڈریوز کے آخری لمحات
’ٹائٹینک‘ ڈوب رہا ہے اور سبھی لوگ جان بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں لیکن تنہا کھڑا ایک شخص پینٹنگ کو گھورے جا رہا ہے۔ بے بسی کی یہ تصویر چیف ڈیزائنر تھامس اینڈریوز ہیں۔ کیا آخری لمحات میں ان کا یہی ردعمل تھا؟ ایک رائے کے مطابق وہ الگ تھلگ کھڑے ہونے کی بجائے آخری وقت تک دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے متحرک رہے۔
کیا جے بروس اسمے واقعی ولن تھے؟
حقیقی زندگی ہو یا فلم ہمیں بہرحال ایک ولن کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ساری غلطیاں اس کے سر تھوپ سکیں۔ شاید یہی میڈیا نے 1912 میں ’ٹائٹینک‘ ڈوبنے کے بعد جے بروس اسمے کے ساتھ کیا، جو ’ٹائٹینک‘ چلانے والی کمپنی وائٹ سٹار لائن کے ایک اعلیٰ عہدے دار تھے۔ یہی رویہ کیمرون نے اپنی فلم میں دہرا دیا۔ کیا اسمے واقعی ایک لالچی انسان تھے جنہوں نے بچوں اور خواتین کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کی فکر کی؟ کیا انہوں نے کیپٹن سمتھ کو جہاز کی رفتار تیز کرنے کے لیے کہا؟ شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔
اگرچہ انکوائری رپورٹ میں اسمے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا لیکن میڈیا نے انہیں بطور ولن بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور کیمرون کے مشیر لوڈن براؤن نے عذر پیش کرتے ہوئے کہا: ’ہم کیا کرتے لوگ انہیں اس روپ کے علاوہ قبول ہی نہ کرتے۔‘
کیا جیک کا فرسٹ کلاس میں آنا ممکن تھا؟
فلم میں پیش کی گئی طبقاتی کشمکش آج تک زیر بحث ہے۔ جیک نچلے طبقے کا ایک کھلنڈرا سا لڑکا ہے جبکہ روز اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے۔ روز کی جان بچانے کے بعد روز کے اصرار پر اس کا منگیتر جیک کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دیتا ہے۔ جیک اشرافیہ والے حصے میں آ کر ان کی میز پر روز اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ کیا ایسا حقیقت میں ہونا ممکن تھا؟ بالکل بھی نہیں۔ خاص طور پر بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں تو ایسی تفریق کا بہت خیال رکھا جاتا تھا۔
جیک کا اشرافیہ کے ساتھ بیٹھنا اس لیے بھی محل نظر ہے کہ تیسرے درجے میں زیادہ تر پناہ گزین موجود تھے اور اس خدشے کے پیش نظر کہ ان سے کوئی مہلک بیماری نہ پھیل جائے انہیں سختی سے اپنے درجے تک محدود رکھا گیا تھا۔
روز کا زندہ بچ جانا
یخ سمندری پانی میں آدھے گھنٹے سے زائد رہنا اور اس کے بعد لکڑی کے ایک تختے پر زندہ بچ جانا کیا ممکن تھا؟ ماہرین کے مطابق اصلی ’ٹائٹینک‘ میں کوئی مسافر ایسے بچ کر نہیں آ سکتا تھا۔ اس درجہ حرارت میں چاہے تختے کے اوپر ہی سہی لیکن وہ جم جاتا۔
کیا حقیقی ’ٹائٹینک‘ کا ڈوبنا اتنا ہی ڈرامائی تھا؟
اگر آپ نے ’اے نائٹ ٹو ریممبر‘ دیکھی ہو تو اس میں برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد ’ٹائٹینک‘ کا تختہ الگ ہوتا نظر نہیں آتا، کیونکہ اس وقت تک یہ واضح نہیں تھا۔ اس اعتبار سے کیمرون کی فلم حقیقت سے زیادہ قریب ہے۔
اصل مسئلہ ڈوبتے سمے جہاز کی منظر کشی کا ہے۔ کیمرون کہتے ہیں کہ چونکہ اس کی جزیات کم کم بیان کی گئی ہیں اس لیے مجھے نسبتاً آزادی تھی کہ اپنی مرضی سے پیش کر سکتا۔ سپیشل ایفیکٹس کے ذریعے کیمرون میاں نے ’ٹائٹینک‘ اور مسافروں کو خوب تہہ و بالا کیا۔