ملتان سے تعلق رکھنے والے محمد ابرار 14 سال قبل درخشاں مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے اسلام آباد آئے تھے، تاہم گذشتہ برس کرونا (کورونا) وائرس کی وجہ سے جب انہیں نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے تو انہوں نے ’ٹارنیڈو‘ چپس کا سٹال لگا لیا۔
محمد ابرار اسلام آباد کی ایک نواحی بستی میں سڑک کنارے یہ نئی قسم کے آلو والے چپس تیار کرتے اور فروخت کرتے ہیں۔
ابرار نے میٹرک کے بعد آٹو موبائیل انجینیئرنگ میں تین سالہ ڈپلومہ کر رکھا ہے، جس کی بنیاد پر انہیں گاڑیوں کی کمپنی میں ملازمت ملی تھی، تاہم گذشتہ سال کرونا وائرس کی وبا کے پھوٹنے کے بعد ان کی نوکری چلی گئی۔
جس کے بعد ابرار کے ایک دوست نے انہیں نہ صرف مختلف قسم کے چپس کی ریڑھی لگانے کا مشورہ دیا بلکہ کاروبار شروع کرنے کے لیے قرض بھی دیا، جس سے انہوں نے ایک ریڑھی تیار کروائی اور سڑک کنارے کاروبار شروع کر دیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن، ابرار کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ وہ روزانہ تقریباً ایک سو ٹارنیڈو چپس فروخت کرتے ہیں اور اپنی موجودہ زندگی سے بہت خوش ہیں۔
ابرار شام کے اوقات میں کام شروع کرتے ہیں اور رات 11 بجے تک ٹارنیڈو چپس فروخت کرتے ہیں۔
ٹارنیڈو چپس کیا ہے؟
ٹارنیڈو چپس، جنہیں مڑے ہوئے (ٹوسٹڈ) چپس یا فرائز بھی کہا جاتا ہے، جنوبی کوریا کا ایک مشہور سٹریٹ فوڈ ہے ، جسے زرعی ہووری انکارپوریٹ کے جیونگ یون سک نے تیار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹارنیڈو چپس کو کورین زبان میں ’ہوئوری گاما‘ کہا جاتا ہے جبکہ انگریزی زبان میں ٹارنیڈو کا مطلب ’طوفان‘ ہے۔
ٹارنیڈو چپس بنانے کے لیے ایک عدد موٹے آلو کوایک مخصوص لیکن سادہ سی مشین میں رکھ کر گھمایا جاتا ہے، جس سے مشین میں لگے بلیڈ سے آلو کٹتا جاتا ہے لیکن کوئی حصہ الگ نہیں ہوتا اور وی سپرنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
کٹے ہوئے آلو کولکڑی کی موٹی سوئی میں پرو کر سپرنگ کو ہاتھ کی مدد سے کھولا جاتا ہے اور پھر اسے بیسن کے آمیزے میں ڈبونے کے بعد گرم تیل میں فرائی کیا جاتا ہے۔
فرائی ہونے کے بعد آلو کے پکے ہوئے سپرنگ پر مصالحے اور چٹنیاں ڈال کر فروخت کیا جاتا ہے۔