اُس دن شبانہ اور بینا گٹارسٹ فرخ عابد کے اسٹوڈیو میں کمرشل کی ریکارڈنگ کے لیے آئی تھیں۔ دونوں نے دفتر میں قدم رکھا اور ریہرسل میں مصروف ہو گئیں۔ تبھی فرخ عابد کو ’جانِ بہار رشک چمن‘ گنگنا تا ہوا پایا۔
شبانہ کو ان کا انداز گلوکاری خاصا پسند آیا۔ گو کہ سلیم رضا کی آواز میں یہ گانا دونوں بہنیں اس سے پہلے بھی سن چکی تھیں، لیکن اس بار انہیں کچھ خوشگوار لطف محسوس ہوا۔ شبانہ نے دریافت کیا کہ یہ گانا کچھ ہٹ کر محسوس نہیں ہورہا پرانے گیت سے؟
فرخ عابد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ان دنوں وہ ایک ٹی وی شو سے منسلک ہیں، جس میں پرانے سدا بہار گانوں کو نئے گلوکاروں کی آواز میں پیش کیا جارہا ہے اور سلیم رضا کے اس مشہو ر گانے کو محمد علی شہکی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ہے، جبھی یہ گیت ان کے ذہن میں گونجا تو گنگنا دیا۔
شبانہ کے دل میں یہ خواہش مچلی کہ کاش اس ٹی وی شو میں انہیں بھی موقع مل جائے۔
ذکر ہورہا ہے 1983 کا جب موسیقار وکٹر بینجمن کی تین باصلاحیت بیٹیاں نریسا، بینا اور شبانہ چھوٹے موٹے پروگراموں میں پرفارم کرتی تھیں۔
کبھی کبھار ٹی وی پر کرسمس کا کوئی پروگرام ریکارڈ ہوتا تو پروڈیوسرز حضرات ان کو یاد کرکے کوئی نہ کوئی گیت ریکارڈ کرا لیتے۔
سُر اور تال سے تو اچھی خاصی شناسائی تھی، جبھی گلوکاری میں کبھی بھی کوئی جھول نہیں ہوتا۔ بچوں کے ٹی وی شو ہم سورج چاند ستارے اور سارے دوست ہمارے میں شرکت کرکے فن گلوکاری کے بنیادی رموز سے بھی آگہی ہو چکی تھی۔
والد وکٹر بینجمن جب چل بسے تو ان بہنوں نے کمرشلز کے لیے گلوکاری کرتے ہوئے گھر کا سہارہ بننے کی جستجو شروع کی۔
یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں پاپ میوزک کی اٹھان ہو رہی تھی، اسی لیے موسیقار جاوید اللہ دتہ نے ان بہنوں کا کیسٹ البم ’ڈسکو پہ ڈسکو‘ تیار کرکے پیش کیا تو انہیں خاصی پذیرائی ملی۔
شبانہ کے دل میں مچلنے والی آرزو کو حقیقت کا روپ دینے میں جاوید اللہ دتہ کا بڑا اہم کردار رہا۔ جنہوں نے ان بہنوں کا تعارف شعیب منصور سے کرایا۔ جو ٹی وی پر ایک ایسا شو ’سلور جوبلی‘ کرنے جارہے تھے کہ جس میں اُن شخصیات کو مدعو کیا جاتا، جنہوں نے اپنے اپنے شعبے میں 25 برس گزار لیے تھے۔
شعیب منصور نے جب ریہرسل میں ان بہنوں کی گلوکاری سنی تو وہ بھی ان کے پرستار ہو گئے، جنہیں یہ انداز بھایا کہ جب یہ بہنیں ایک ساتھ گلوکاری کرتی ہیں تو کہیں سے بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ تین گلوکارائیں اپنی آواز کا جادو جگا رہی ہیں۔
ایک ہی سُر اور لے میں دلوں کے تار چھیڑنے والی گلوکاری کی تعریف کرنے کا شعیب منصور کا دل خود بخود چاہا۔ جنہوں نے انہیں ’بینجمن سسٹرز‘ کا نام دیا۔
یہ شعیب منصور ہی تھے، جنہوں نے ان گلوکار بہنوں کو اپنے شو ’سلور جوبلی‘ میں پہلی بار نغمہ سرائی کا موقع دیا۔
جولائی 1983 میں جب ’سلور جوبلی‘ میں پہلی مرتبہ بینجمن سسٹرز نے گلوکارہ زبیدہ خانم کا مشہور گیت ’جیا گائے تارا را را رم‘ سنایا تو پروگرام میں شریک وحید مراد، اطہر شاہ خان اور پروین شاکر تک جھوم اٹھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شعیب منصور نے بینجمن سسٹرز کو صرف ایک ہی شو میں گلوکاری کرنے کا موقع دیا تھا لیکن ان کی انداز گلوکاری کی مقبولیت اور پذیرائی نے انہیں ایسا مجبور کیا کہ وہ ہر ہفتے بینجمن سسٹرز کا کوئی نہ کوئی گیت پروگرام کا حصہ بناتے۔
ان بہنوں کی ہم آواز گلوکاری کے پیش نظر ہی ان کے لباس کو بھی ایک جیسا ڈیزائن کیا جاتا۔ جس کے لیے اس وقت کے مشہور ڈریس برانڈ ’ٹی جیز‘ کی خدمات حاصل کی گئیں۔
بینجمن سسٹرز کے مطابق پہلے ہی شو سے انہیں راتوں رات شہرت اور مقبولیت ملی۔ صرف بینجمن سسٹرز ہی نہیں اس شو نے فن موسیقی کو سجاد علی، حمیرا چنا، وہاب خان اور تحسین جاوید جیسے گلوکار بھی دیے۔
بینجمن سسٹرز کے مطابق انہوں نے ’سلور جوبلی‘ کے سبھی شوز میں شرکت کی۔اُس زمانے میں جب سلور جوبلی میں گائے ہوئے گانوں کی آڈیو کیسٹ جاری ہوئی تو اس نے بھی بینجمن سسٹرز سمیت دیگر گلوکاروں کو عوامی پذیرائی دی۔
بینجمن سسٹرزکے لیے وہ لمحات یادگار بن گئے جب ایک شو میں ملکہ ترنم نور جہاں کی موجودگی میں ان کا نغمہ گایا۔ کسی بھی گیت کی ریکارڈنگ کے لیے بینجمن سسٹرز اچھی خاصی ریہرسل کرتیں۔
کوشش یہی ہوتی کہ کہیں بھی ایک دوسرے کی آواز، اوپر نیچے نہ ہو۔ اس شو کے دوران ایسا موڑ بھی آیا جب بینجمن سسٹرز نے ’تجھ پر قربان شیر دل خان‘ کو گانے کی معذرت کی۔ ان کے مطابق اس گیت کو لے کر ان کو یہ اندیشہ تھا کہ اس پر ہم آواز ہو کر نغمہ سرائی نہیں کر سکتیں۔
بینجمن سسٹرزنے صرف ’سلور جوبلی‘ میں ہی نہیں بلکہ ملی نغمے گا کر بھی دھوم مچائی۔ ان کے مشہور ملی نغموں میں ’اے روح قائد،‘ ’ہم زندہ قوم ہیں‘ اور ’خیال میں ایک روشنی ہے،‘ خاصے مقبول ہوئے جبکہ عالمگیر کے ساتھ دو بہنوں نے ’خیال رکھنا‘ پر نغمہ سرائی کی۔
بیشتر پرستار سمجھتے ہیں کہ بینجمن سسٹرز صرف تین ہی بہنیں ہیں جبکہ ان کی ایک اور بہن بھی ہے۔
بینجمن سسٹرز کا یہ گروپ مختلف ٹی وی شوز میں پرفارم کرتا رہا ہے۔ 1987 میں نریسا کی شادی ہوگئی، جن کے شوہر ان کی آواز کے مداح تھے۔ ایک بہن شبانہ وائس اوور آرٹسٹ اور وی جے بن کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگیں۔ جبکہ کچھ ایسی ہی صورتحال بینا کے ساتھ بھی پیش آئی۔
گھریلو ذمے داریوں کی ادائیگی کے باعث تینوں کے پاس موسیقی اور گلوکاری کے لیے وقت کم سے کم ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ وہ منظرِ عام سے ہٹ گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستان میں ’سسٹرز سنگر‘ کی بنیاد ڈالنے والی بینجمن سسٹرز پہلی نہیں تھیں بلکہ ان سے پہلے یہ کارنامہ 1966میں کراچی کی ہی گلوکارہ بہنیں ’دی زیوائر سسٹرز‘ انجام دے چکی ہیں، جن کا کیریئر نو سال پر محیط رہا۔ پانچ بہنوں کا یہ گلوکاری کا میوزیکل گروپ ’بینجمن سسٹرز‘ کی طرح ایک جیسا لباس پہنتا تھا۔
انہوں نے کراچی کے مشہور ہوٹلوں اور غیر ملکی انسٹی ٹیوٹس میں اپنی پرفارمنس سے دلوں کے تار چھیڑنے کا فن خوب برتا۔ البتہ ’بینجمن سسٹرز‘ کی ہم آواز والی خصوصیات اس گروپ میں نہیں تھی۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ مختلف آلات موسیقی کو کمال مہارت سے بجا کر ماحول کو رومان پرور بنانے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھیں، جبھی اُ س دور میں ہر شو کی جان تصور کی جاتیں۔