پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کی دو نرسوں کو توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا ہے۔
سٹاف نرس مریم اور سٹوڈنٹ نرس نیوش پر وارڈ میں لگے درود پاک کے سٹیکر کو اتارنے پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ پولیس نے زیر دفعہ 295-بی مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
یہ واقعہ 8 اپریل کو پیش آیا تھا جس کے بعد ہسپتال کے عملے اور دیگر شہریوں نے ان نرسوں پر دھاوا بول دیا اور پولیس کے پہنچنے پر دونوں کو ان کے حوالے کر دیا گیا۔
نرسوں کے وکیل اکمل بھٹی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ کیس عوامی دباؤ پر بنایا گیا ہے اور واقعہ بھی مختلف انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک نرس مریم مسلمان ہیں۔
پولیس کے مطابق ہسپتال انتظامیہ کی درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اس کی تفتیش جاری ہے۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
پولیس تھانہ سول لائنز فیصل آباد میں ڈی ایم ایس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (ڈی ایچ کیو)مرزا محمد علی کی جانب سے درخواست پر مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ’سٹاف نرس مریم اور سٹوڈنٹ نرس نیوش جن کا مذہب مسیحی ہے وہ 8 اپریل کو وارڈ میں ڈیوٹی دے رہی تھیں تو انہیں معلوم ہوا کہ چارج نرس مریم کے کہنے پر نیوش نے وارڈ میں الماری پر لگے درود پاک کے سٹیکر کو کھرچ کر اتارا۔ جب میں دیگر عملہ کے ساتھ وہاں پہنچا تو نیوش نے سٹیکر مٹھی میں بند کر لیا جب انہیں مٹھی کھولنے کا کہا تو اس میں درود پاک کا پھٹا ہوا سٹیکر تھا۔‘
ڈی ایم ایس کے مطابق اگلے روز 9 اپریل کو اس معاملے کی انکوائری بھی کی گئی جس میں ثابت ہوا کہ یہ سٹیکر انہوں نے مذہبی منافرت کی وجہ سے اتارا اور توہین مذہب کی ہے، لہذا ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا جائے۔
پولیس نے دونوں نرسوں کو گرفتار کر کے عدالت پیش کیا تو انہوں نے الزام کو مسترد کیا اور کہا کہ ایک مریض کی جانب سے پھاڑا گیا سٹیکر نیچے زمین سے اٹھایا تھا۔ عدالت نے دونوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
دوسری جانب نرسوں کے وکیل اکمل بھٹی ایڈووکیٹ کے مطابق اس واقعے کو مذہبی رنگ دیا جا رہا ہے اور جب یہ شور مچا تو ہسپتال کا عملہ اور شہریوں کی بڑی تعداد وہاں جمع ہو گئی۔ ایک ڈسپنسر وقاص جٹ نے چھری سے ان نرسوں کو قتل کی کوشش بھی کی اور وہاں پولیس کی موجودگی میں بھی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے جو ان کی جان کے درپے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پولیس نے عوامی دباؤ کے تحت مقدمہ درج کیا ہے کیونکہ جس وارڈ میں یہ واقعہ پیش آیا وہ ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کا وارڈ ہے۔‘
اکمل بھٹی کاکہنا ہے کہ ’عوامی دباؤ کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہم نے نو اپریل کو پریس کلب فیصل آباد میں پریس کانفرنس رکھی اور فیس بھی جمع کرا دی لیکن انتظامیہ کے کہنے پر یہ پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ دوسرا یہ کہ واقعہ آٹھ اپریل کو پیش آیا جب کہ دونوں نرسیں نو اپریل کو بھی ڈیوٹی پر آئیں کیوں کہ انہیں کوئی خوف نہیں تھا کہ ان کے خلاف جھوٹا الزام لگا کر عوامی دباؤ پرملزم بنا دیاجائے گا۔‘
قانونی کارروائی اور مسیحی برادری کا خوف:
فیصل آباد پولیس کے ترجمان منیب عارف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس نے ڈی ایم ایس کی درخواست پر قانون کے مطابق کارروائی کی ہے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو انتظامیہ کی درخواست پر ہی دونوں نرسوں کو حراست میں لیا گیا اور عدالت پیش کر دیا گیا۔ عدالتی حکم پر دونوں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا ہے تاہم اس کیس کی اعلی سطحی تفتیش جاری ہے جس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ جیسے ہی تفتیش مکمل ہوگی، چالان عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔
اس کیس کی پیروی کرنے والے وکیل اور مائینارٹی الائنس پاکستان کے چیئرمین اکمل بھٹی نے کہا کہ مسیحی ملک بھر کی طرح فیصل آباد میں بھی اقلیت میں ہیں جب بھی اس طرح کا واقعہ پیش آتا ہے تو تمام مسیحی برادری کو نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اسی ہسپتال میں جب سے یہ واقعہ پیش آیا ہے، دیگر مسیحی ملازمین بھی خوفزدہ ہیں جب کہ دونوں نرسوں کے اہل خانہ بھی گھر چھوڑ کر اپنے عزواقارب کے ہاں جاچکے ہیں کیونکہ یہاں ردعمل کے باعث کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہاکہ اس معاملے میں ہم عدالتوں کے انصاف سے پر امید ہیں، جب اس کیس کا عدالت میں ٹرائل ہوگا تو ہم ثابت کریں گے کہ یہ الزام جھوٹا تھا۔ اور دونوں نرسیں بے گناہ ہیں۔‘
متحدہ علما بورڈ کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کے مطابق اس معاملے کی غیر جانبدار چھان بین ہوگی اور خلاف قانون کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ ’ہم توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال نہیں کر سکتے۔‘ انہوں نے کہا کہ اس کیس کا معائنہ کیا جا رہا ہے، حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کارروائی کی جائے گی، کسی بھی بے گناہ کو سزا نہیں دی جائے گی۔
اکمل بھٹی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کے لیے پریس کانفرنس کے بنیادی حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔