اجمل ایک چھوٹی سی سافٹ ویئر کمپنی چلاتا ہے۔ اس کے پاس آٹھ لوگ کام کرتے ہیں جنھیں مہارت کی بنیاد پر متعقلہ شعبوں میں ذمہ داریاں سونپ رکھی ہیں۔ ماہانہ میٹنگ میں ٹارگٹ طے کرتا ہے اور اگلے مہینے رپورٹ لیتا ہے۔
اجمل پانچ سال سے کامیاب کاروبار کر رہا ہے، ٹیکس ذمہ داری سے جمع کرواتا ہے اور ملازم بھی خوش ہیں جبکہ اس کے دوست کا سافٹ ویئر ہاؤس پچھلے اڑھائی سالوں سے ہر مہینے ملازم بدل دیتا ہے۔ لڑائی جھگڑے روز کا معمول ہیں۔ بینک قرض کی رقم لینے آتے ہیں تو دفتر کی کوئی چیز بیچ کر قسطیں ادا کر دی جاتی ہیں۔ چار صوبوں میں پھیلی یہ کمپنی آج صرف ایک شہر تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جبکہ اجمل کی کمپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ میری کامیابی کی وجہ مستقل مزاجی، اعتماد اور بہتر مینجمنٹ صلاحیتوں کا ہونا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے ٹیم کے ارکان کی سلیکشن میں سب سے زیادہ وقت لگاتا ہوں۔ ایک مرتبہ جب اپنے ساتھ ملا لوں تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ اگر وہ غلطیاں بھی کرے تو اس کی سمت درست کرتا رہتا ہوں۔ اسے نوکری سے نہیں نکالتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند ماہ بعد وہ مجھ سے بہتر کام کرنے لگتا ہے۔
آج صبح اجمل نے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ حکومت پاکستان نے پونے تین سالوں میں چھ چیئرمین ایف بی آر تعینات کیے ہیں۔ حماد اظہر کے وزیر خزانہ آنے کے بعد بھی نئے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو مقرر کر دیے گئے ہیں۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد اجمل سوچنے لگا کہ جس ڈپارٹمنٹ کے 32 مہینوں میں چھ چیئرمین تعینات ہوں گے وہاں اوسطاً ایک چیئرمین کو کام کرنے کے لیے ساڑھے پانچ ماہ ملے ہوں گے۔ اتنی دیر میں تو کام اور ذمہ داریاں سمجھنے میں لگ جاتی ہے۔ وہ کب پلاننگ کرے گا، کب انھیں لاگو کرے گا اور کب نتائج دے گا۔ یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ پوری چین بدل جاتی ہے۔ نیا چیئرمین تمام اہم عہدوں پر اپنی پسند کے لوگوں کو تعینات کرتا ہے۔ یعنی کہ اوسطا ہر پانچ ماہ بعد ایف بھی آر کی پوری ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں جونیر آفیسرز بھی سینئیرز کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ افسر نے تو پانچ ماہ بعد بدل ہی جانا ہے لہٰذا بات ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس نے پڑھا کہ چھٹے چیئرمین ایف بی آر کا کرہ عاصم احمدکے نام کا نکلا ہے۔ سابق چیئرمین جاوید غنی سو دن کی حکومت کر کے گھر چلے گئے ہیں۔ عاصم صاحب کے ذمے آئی ایم ایف کا مالی سال 2022 کا چھ کھرب روپے کا ٹیکس ٹارگٹ پورا کرنا ہے۔ اجمل چونکہ ٹیم کی سلیکشن کرنے میں مہارت رکھتا ہے اس لیے یہ جاننے کی کوشش کرنے لگا کہ خان صاحب نے کس بنیاد پر انھیں چیئرمین مقرر کیا ہے۔ ان میں اور ماضی کے چیئرمینوں میں کیا ایسا فرق ہے کہ جو کام وہ نہیں کر سکے وہ یہ کامیابی سے کر لیں گے۔ تحقیق سے اسے معلوم ہوا کہ عاصم احمد کا تعلق ان لینڈ ریوینیو ڈپارٹمنٹ سے ہے۔ ممبر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اکیسویں گریڈ کے آفیسر ہیں۔ آئی آر ایس ڈپارٹمنٹ میں سینیارٹی کے اعتبار سے پندرھویں نمبر پر آتے ہیں۔ بہت سے 22 گریڈ کے سینیئر آفیسرز کو چھوڑ کر انھیں منتخب کر کے اوپر لایا گیا ہے۔ ماضی میں کوئی متاثر کن کامیابیاں بھی نہیں ہیں۔ پھر کیوں انھیں منتخب کیا گیا۔ تحقیق کے دوران اسے علم ہوا کہ مبینہ طور پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریوینیو ڈاکٹر وقار مسعود خان نے ان کا نام تجویز کیا تھا۔
اس کے علاوہ حماد اظہر صاحب سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔ اجمل سوچنے لگا کہ وہ کبھی بھی ایسے شخص کو اپنی نجی کمپنی کے سب سے اہم ڈپارٹمنٹ کا ہیڈ نہیں بنائے گا جس کے کریڈٹ میں پروجیکٹ سے متعلق ایک بھی خاص بات نہ ہو۔ کوئی پلاننگ نہ ہو اور نہ ہی متعقلہ قابلیت ہو۔ پھر عوام کا درد رکھنے کا دعویٰ کرنے والی اور پچھلی حکومتوں کی نااہلی کا نعرہ لگا کر ووٹ لینے والی تحریک انصاف کی جماعت نے ایسا فیصلہ کیسے کر لیا۔
وجہ شاید یہ ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کے ناکام ہونے سے وزرا یا وزیراعظم کی جیب پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ نقصان بھی عوام کی جیبوں سے ادا ہوتا ہے۔ جس دن تک حکمران عوام کے پیسے کو اپنا پیسہ اور ملک کے نقصان کو ذاتی نقصان نہیں سمجھیں گے سرکاری ادارے ترقی نہیں کر سکیں گے۔ شاید ایف بی آر کا موجودہ حال بھی ایسے فیصلوں کی بدولت ہے۔
حکومت ایف بی آر کو کتنا سنجیدہ لیتی ہے اس کا اندازہ اجمل کو یہ خبر پڑھ کر ہوا کہ پنجاب حکومت کی سرکاری انتظامیہ نے شوگر ملز مالکان کو تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے کہ ایف بی آر میں غیر رجسٹر شوگر ڈیلروں کو بھی چینی بیچی جائے۔ جبکہ حکومت یہ جانتی ہے کہ ایسا کرنا جرم ہے۔ قانون کے مطابق کسی بھی ایسے شخص یا کمپنی کو مِلز سے چینی نہیں بیچی جا سکتی جو اِنکم اور سیلز ٹیکس رجسٹرڈ نہ ہو۔ خلاف ورزی کرنے والے کو جیل کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
سرکاری انتظامیہ نے موقف یہ اپنایا ہے کہ یہ سب کچھ لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق کیا جا رہا ہے جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر میں قیمت 80 روپے فی کلو مقرر کرنے کا ذکر موجود ہے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ سیلز ٹیکس کی شرط ختم کر دی جائے۔ ہائیکورٹ کے مطابق ساڑھے 15 لاکھ میٹرک ٹن چینی رمضان بازاروں میں دی جائے تا کہ قلت پیدا نہ ہو سکے۔ قانون کے مطابق سرکاری انتظامیہ کسی بھی نوٹس کے ذریعے سیلز ٹیکس رجسٹریشن کی شرط کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر مل مالکان ایسی کسی فروخت کا حصہ بنتے ہیں تو یہ بے نامی ٹرانزیکشن کے زمرے میں آئے گی۔ جس کی سزا سات سال قید یا پراپرٹی کی مارکیٹ ویلیو کا 25 فیصد جرمانہ ہے۔
تحریک انصاف کی اس طرح کی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی چینی کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ ایسے ہی حکم ناموں کی بدولت پہلے چینی برآمد کر کے قلت پیدا کی گئی جس کا خمیازہ پاکستانی عوام آج تک بھگت رہی ہے۔ ہول سیل میں 50 کلو چینی کا تھیلا 5200 روپے کا مل رہا ہے۔ اس حساب سے 104 روپے فی کلو قیمت ٹھہری۔ ریٹیل میں قیمت 110 روپے فی کلو ہے۔ مارکیٹ میں 50 روپے فی کلو بکنے والی چینی آج ایک سو دس روپے ریٹیل قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ بلکہ بعض شہروں میں 115 سے 125 روپے فی کلو بھی رپورٹ ہو رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے ان ڈیلروں کے نام بھی بھیجے ہیں جو رمضان بازاروں کی بجائے پوش علاقوں میں چینی بیچتے ہیں۔ اس ساری ملی بھگت میں ایک مرتبہ پھر چینی کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ سیلز ٹیکس نمبر نہ ہونے کی وجہ سے فرضی ناموں پر چینی فروخت ہو رہی ہے۔ کس نے کتنی چینی لی اور کہاں بیچ دی کوئی مستند حساب کتاب موجود نہیں ہے۔ اینٹی ٹرسٹ واچ ڈوگ نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ قیمتوں کے فرق اور بے نامی خریدار ہونے کی وجہ سے چینی سمگلنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جس سے چینی کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان شوگر مل ایسوسی ایشن پنجاب نے چیئرمین ایف بی آر کے سامنے بھی معاملہ رکھ دیا ہے۔ جس میں یہ اپیل کی گئی ہے کہ ہم جیل یا سزائیں نہیں بھگت سکتے۔ ہمیں بتایا جائے کہ ہم ایف بی آر کی بات مانیں یا حکومت پنجاب کی۔ لیکن تمام کوششیں بے سود رہی ہیں۔
اجمل یہ سوچ رہا ہے کہ ایک طرف حکومت چینی سکینڈل کی تحقیقات کا کریڈٹ لے رہی ہے اور دوسری طرف چینی کا ایک نیا سیکنڈل سامنے آ گیا ہے۔ جس کی پشت پناہی بھی سرکاری انتظامیہ کر رہی ہے۔ کیا ملک کے ساتھ مخلص حکومت اس طرح کے فیصلے کر سکتی ہے؟ اگر ان فیصلوں سے ان کے ذاتی کاروبار کو نقصان پہنچتا تو کیا یہ ایسا ہونے دیتے؟ اس بے احتیاطی یا مجرمانہ فعل کا نقصان چونکہ عوام کو ہے اس لیے بے دریغ فیصلے ہو رہے ہیں اور جیبیں گرم کی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف اس معاملے کا براہ راست تعلق ایف بی آر سے ہے۔ وہ سوچ رہا ہے کہ کس طرح سرکاری انتظامیہ کی یہ ہمت بندھ گئی کہ وہ ایف بی آر کے قوانین کے خلاف سرکاری حکم نامہ جاری کر دے۔ کیا اسے احتساب کا ڈر نہیں رہا ہے۔ یا پھر وہ بھی یہ سوچتے ہیں کہ جس ایف بی آر کے پونے تین سالوں میں چھ چیئرمین تعینات ہو گئے ہوں اس ادارے کے معاملات کو کون سنجیدہ لے گا۔ اگر کسی نے ایکشن لے بھی لیا تو اوسطا پانچ مہینوں بعد تبادلہ ہو جائے گا اور فائلیں الماریوں کی زینت بن جائیں گی۔
اجمل کو یہ خبریں پڑھ کر اپنے دوست کا تباہ ہوتا سافٹ ویئر ہاؤس یاد آ گیا جس کی تباہی کی ذمہ داری بھی عہدوں پر تعینات افسروں کی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر تبدیلی اور مالکان میں مستقل مزاجی کی کمی تھی۔
اس کا کہنا ہے کہ حکومتی نا تجربہ کاری، غلط فیصلوں اور مبینہ کرپشن کی ایسی کئی کہانیاں روز سامنے آ رہی ہیں لیکن سرکار ان پر قابو پانے کی بجائے اسے بڑھاوا دینے کا سبب بن رہی ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ کسی افسر کو تعینات کرنے سے پہلے اچھی طرح جائزہ لیں۔ جب اسے ذمہ داری سونپ دیں تو پھر اسے کم ازکم پانچ سال تک ساتھ لے کر چلیں۔ اس کی غلطیوں کو درست کریں اور اس کی سمت درست رکھنے کے لیے محنت کریں۔ امید ہے کہ وہ کامیابی سے ادارہ چلا سکے گا۔ فی الحال جس طرز پر تحریک انصاف حکومت کر رہی ہے وہ ناکامی کا فارمولا ہے کامیابی کا نہیں۔ ملک ہو یا کاروبار اگر اسے تحریک انصاف کے طریقے پر چلایا جائے گا تو پھلنے پھولنے کے امکانات بہت کم ہوں گے۔ بلکہ ممکن ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت بھی برقرار نہ رکھ سکیں۔