امجد صبح کے وقت کالج جاتا ہے اور شام کو برگر کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ باپ مر چکا ہے، دو بہنیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے ہیں۔ بڑا بھائی ہونے کے ناطے گھر کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔
امجد کے گھر میں راشن کے پیسے نہیں ہیں اور مارچ 2021 کے مہینے کا بجلی کا بل آ چکا ہے۔ جب اس نے مارچ 2020 سے موازنہ کیا تو علم ہوا کہ ایک سال میں بجلی کی فی یونٹ کی قیمت دو گنا سے زائد بڑھ چکی ہے۔
اس ماہ کا بل پچھلے سال اسی ماہ کے بل سے دو گنا زیادہ ہے۔ حکومتی وزرا کے بیانات سنے تو علم ہوا کہ وہ سارا ملبہ ڈالر کی قیمت بڑھنے پر ڈال رہے ہیں۔
امجد سوچنے لگا کہ ڈالر کی موجودہ قیمت ایک سال پرانی قیمت کے برابر آ چکی ہے تو بجلی کی قیمت کم از کم پچھلے سال کے برابر رہنی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
وہ کالج کا طالب علم ہو کر اس منطق کو سمجھتا ہے لیکن مبینہ طور پر یونیورسٹیوں سے پڑھے لکھے وزرا شاید اس بچے سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں یا وہ عوام کو بیوقوف بنانے کے ہنر سے واقف ہیں لیکن اب عوام کو ان باتوں کی عادت ہو گئی ہے۔
بڑے سے بڑا جھوٹ بھی چھوٹا لگنے لگا ہے اور جہاں تک دعوے رہ گئے بجلی سستی کرنے کے تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ سستا کرنا توایک طرف اگلے تین ماہ بعد پاکستان میں بجلی کا ایک یونٹ عام پاکستانیوں کو اتنے کا چارج ہو گا جتنا امریکہ میں ہوتا ہے۔
یہ جملہ بطور طنز نہیں لکھا جا رہا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ اسے وہ وقت بھی یاد ہے جب اسد عمر اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر ایک ایک پائی کا حساب کر کے بتاتے تھے کہ بجلی سستی پڑتی ہے اور حکومت عوام کو لوٹ رہی ہے۔ حکومتی وزیر بجلی چوری کرتے ہیں اور اس کا بوجھ عوام پر ڈال دیتے ہیں۔
پاکستان کے پاس دنیا کا سب سے سستا بجلی پیدا کرنے کا نظام موجود ہے حکومتی مافیا اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔ ہم ڈیم بنا کر اتنی بجلی پیدا کریں گے کہ پاکستان بجلی برآمد کر سکے گا۔ آج وہ اسد عمر اس موضوع پر گفتگو کرنے سے قاصر ہیں۔
ان سے گزارش ہے کہ یا تو عوام کو بجلی سستی کر کے دیں یا پھر سر عام معافی کے طلب گار ہوں کہ ہم نے آپ کو جھوٹی امیدیں دلائیں تھیں۔
امجد کو یہ بھی علم ہوا کہ آئی ایم ایف نے ایک دن قبل جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق حکومت پاکستان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ موجودہ مالی سال 2021 کے اختتام سے قبل بجلی کی قیمتوں میں تقریباً 4.97 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا۔ اکتوبر تک یہ اضافہ تقریباً 5.67 روپے بڑھ جائے گا جو تقریباً 36 فیصد بنتا ہے۔ اگر 10 فیصد سر چارج بھی شامل کیا جائے تو فی یونٹ بجلی کی قیمت سات روپے فی یونٹ تک بڑھ جائے گی۔
یاد رہے کہ موجودہ مالی سال کے اختتام میں صرف تین ماہ باقی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ اگلے سال ماہانہ، سہہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس سے پاکستانی عوام پر 884 بلین روپوں کا اضافی بوجھ ڈالا جائے گا۔ اگر سر چارج بھی ڈالا جائے تو یہ بوجھ 934 ارب روپے تک بڑھ جائے گا۔ اس سے پہلے فروری 2021 میں بھی بجلی کی قیمت 1.95 روپے فی یونٹ بڑھائی گئی تھی۔ اگر اس اضافے کو بھی شامل کیا جائے تو فی یونٹ تقریبا 8.95 روپے بنتا ہے اور عوام پر اضافی بوجھ کی رقم 1.13 ٹریلین روپے بنتی ہے۔
مستقبل میں قیمتیں بڑھانے کے لیے قانون میں ردوبدل کی ضرورت تھی جو حکومت پاکستان نے کر دی ہے۔ اب نیپرا آئی ایم ایف کے کہنے پرکیبنٹ کی منظوری کے بغیر بھی بجلی کی قیمتیں بڑھا سکتی ہے۔ حکومت نے بوجھ عوام پر ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن امجد سوچ رہا ہے کہ وہ اتنا زیادہ بجلی کا بل کیسے ادا کرے گا۔ آنے والے ماہ میں گھر کا بجلی کا میٹر کٹ گیا تو پھر وہ کیا کرے گا۔ اپنے یتیم بہن بھائیوں اور بیوہ ماں کو کہاں لے کر جائے گا۔
امجد جب اخبار پڑھ رہا تھا تو اسے علم ہوا کہ حکومت نے بیرون ملک کے کمرشل بینکوں کو سود کی آمدن پر ٹیکس ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پچھلے ایک سال میں بیرون ملک کمرشل بینکوں نے تقریباً تین ارب ڈالر کے جو قرضے دیے ہیں حکومت پاکستان ان پر جب سود کی ادائیگی کرے گی تو ٹیکس نہیں کاٹے گی۔
ملک پاکستان میں یہ قانون موجود ہے کہ کسی بھی بینک میں سود یا منافع کی ادائیگی کے وقت ٹیکس کاٹ کر باقی رقم سرمایہ کار کو دی جاتی ہے۔ لیکن اس سال وفاقی کابینہ نے نیا فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
یہ سلسلہ جنوری 2021 میں شروع ہوا جب سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب نے کابینہ کو بتایا کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں اس وقت تک ڈالر نہیں لائیں گے جب تک انہیں سود کی آمدن پر ٹیکس ریلیف نہ دیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی شرح 30 فیصد ہے۔
کابینہ نے جنوری میں ہی ریلیف کی منظوری دے دی۔ مارچ میں آئی ایم ایف نے 50 کروڑ ڈالر جاری کیے تو اگلے ہی روز حکومت نے اڑھائی ارب ڈالر کے یورو بانڈ جاری کر دیے۔
یہ بانڈز ٹیکس ریلیف کی شرائط کے ساتھ جاری کیے گئے۔ آٹھ اپریل 2021 تک تین ارب ڈالر کے بینک قرضوں اور ڈھائی ارب ڈالرز کے یورو بانڈز یعنی کہ ساڑھے پانچ ارب ڈالرز پر سود ادائیگی سے مکمل ٹیکس چھوٹ دے دی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جن بینکوں کو یہ چھوٹ دی گئی ان میں چائنا ڈویلپمنٹ بینک، بینک آف چائنا، انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا، کریڈٹ سویز بینک، ایمریٹس این بی ڈی،اجمان بینک، ایکو ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ بینک اور دبئی اسلامک بینک شامل ہیں۔
ایکو بینک سے چار کروڑ ڈالر، اجمان بینک سے 11 کروڑ ڈالرز، بینک آف چائنا سے 50 کروڑ ڈالر، چائنا ڈویلپمنٹ بینک سے ایک ارب ڈالر، انڈسڑیل کمرشل بینک آف چائنا سے 500 ملین ڈالرز، دبئی اسلامک بینک سے 40.5 کروڑ ڈالر، کریڈٹ سویز سے 11.5 کروڑ ڈالر اور ایمریٹس این ڈی بی سے 370 کروڑ ڈالرز قرض لے رکھا ہے۔
امجد یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ اس ٹیکس ریلیف سے خزانے پر کتنا بوجھ پڑا ہے۔ اسے معلوم ہوا کہ حکومت نے یہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔
شاید سرکار خوفزدہ ہے کہ اگر قرضوں کی شرح سود اور ٹیکس ریلیف کا ڈیٹا جاری کر دیا تو وزرا کی کارکردگی کھل کر سامنے آ جائے گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکار کے پاس جو بھی ریکارڈ ہے وہ عوام کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔کیونکہ سود کی ادائیگی بھی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کی جاتی ہے۔ ریاست عوام کی امانتوں کی رکھوالی ہے مالک نہیں۔
امجد نے پڑھا کہ قرض حاصل کرنے کی وجوہات بھی درج ہیں۔ قرض اس لیے حاصل کیے گئے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو تین ارب ڈالرز کی ادائیگی کے بعد پاکستان کے ڈالر ذخائر 10 ارب ڈالر سے نیچے آ گئے تھے۔جبکہ حکومت اسے ڈبل فیگر میں رکھنا چاہتی ہے۔ دو ارب ڈالر چین سے قرض لیا گیا جو کہ مارکیٹ سے زیادہ شرح سود پر اٹھایا گیا ہے۔
مزید ایک ارب ڈالر چائنا سے مانگا گیا تو اس نے انکار کر دیا جس پر چین سے گزارش یہ کی گئی کہ جو ڈیڑھ ارب ڈالر کا اس سال واجب الادا قرض ہے اس کی مدت میں ایک سال توسیع کر دی جائے۔
درخواست منظور ہوئی اور اس رقم سے گلف ممالک کا قرض اتارا گیا۔ آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالر ملنے کے بعد پاکستان کے ڈالر ذخائر تقریبا ساڑھے 13 ارب ڈالر تک بڑھ گئے اور اگلے ہفتے یوروبانڈ کے اڑھائی ارب ڈالرز وصول کرنے کے بعد ذخائر 16 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔
لیکن یہ قرض کا پیسہ ہے۔ جسے آج نہیں تو کل ادا کرنا ہے۔ صنعت کاری کے شعبے میں پیسہ نہیں لگایا گیا۔ جو کہ نوکریاں پیدا کرے گا بلکہ یہ ایک طرح کی ہاٹ منی ہے جو کم مدت ہوتی ہے اور بلند ریٹ چارج کیا جاتا ہے۔
امجد یہ سوچ رہا تھا کہ ایک تو مہنگے داموں قرض لیے اور دوسرا سود کی عام معافی کا اعلان کر دیا گیا۔ نہ پارلیمنٹ سے منظوری لی گئی۔ نہ عوام سے رائے مانگی گئی۔ نہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا گیا۔
ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی جمہوریت نہیں بلکہ شہنشاہ اکبر کا دربار لگا ہے۔ وزیروں نے بادشاہ کے حکم پر آمین کہا اور ملک کو آنے والی آمدن روک دی گئی۔ اسے وزیراعظم عمران خان کا وہ جملہ یاد آ گیا جس میں انھوں نے نوازشریف کے پانامہ کیس پر خواجہ آصف کے قومی اسبملی میں تقریر کے جواب میں کہا تھا کہ یہ ’تمھارے باپ کا پیسہ ہےجو عوام بھول جائے گی؟‘
تشویش اس بات کی ہے کہ آج وزیراعظم کو کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کیا یہ تمھارے باپ کا پیسہ ہے جو تم نے معاف کر دیا ہے۔ وہ سوچ رہا ہے کہ ان بینکوں کو ٹیکس چھوٹ کی کیا ضرورت ہے۔
وہ پہلے ہی کروڑوں ڈالر روزانہ کما رہے ہیں اور ریلیف بھی ان کو دیا جا رہا ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔
یہ ملک شاید آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے لیے بنا ہے۔ پالیسیوں کا محور یہی ادارے ہیں نہ کہ عوام۔ حقیقی مسائل کا شکار تو عام انسان ہے۔ جنھیں حل کرنے یا کم کرنے کے لیے حکومتی کوششیں نظر نہیں آ رہی۔
جو ریلیف بیرون ملک بینکوں کو دیا گیا ہے اتنی رقم کی سبسڈی اگر عوام کے بجلی کے بلوں میں دے دی جاتی تو مہنگائی کا زور ٹوٹنے میں مدد ملتی اور عام آدمی تک یہ پیغام پہنچتا کہ حکومت عوامی درد رکھتی ہے اور مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
امجد جیسے کروڑوں لوگ حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔ جتنی توجہ آئی ایم ایف اور دیگر بیرون ملکی مالیاتی اداروں کو سہولتیں فراہم کرنے پر دی جاتی ہے، اگر اس کا 10 فیصد بھی عوام کو ریلیف دینے کے بارے میں سوچا جائے تو امجد کے مسائل کا حل بھی نکل سکتا ہے۔ ضرورت صرف ترجیحات طے کرنے کی ہے۔