وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ کالعدم قرار دی گئی مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) 30 دن کے اندر اپیل کرسکتی ہے۔
اسلام آباد میں بدھ کو وفاقی وزرا کی جانب سے بین الاقوامی میڈیا کو تحریک لبیک کے معاملے پر دی جانے والی بریفنگ کے دوران وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ ’ٹی ایل پی پر پابندی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 11 بی کے تحت عائد کی گئی ہے، حکومت خود پابندی نہیں ہٹائے گی لیکن 11 سی کے تحت 30 دن کے اندر وہ اپیل کر سکتے ہیں، جس پر حکومت کمیٹی تشکیل دے گی۔ تحریک لبیک ایک مرتبہ کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف پیش کرے گی اور کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ پابندی برقرار رکھی جائے یا ختم کی جائے۔‘
میڈیا بریفنگ کے دوران شیخ رشید نے بتایا کہ مذاکرات میں سعد رضوی شریک نہیں تھے بلکہ ان کی مجلس شوریٰ کے لوگ بطور نمائندہ موجود تھے۔
بریفنگ سے قبل میڈیا کے نمائندوں کو تحریک لبیک سے متعلق ڈاکومینٹری بھی دکھائی گئی، جس کا آغاز سلمان تاثیر کے قتل اور ممتاز قادری کے ذکر سے کیا گیا، جس میں بتایا گیا کہ خادم رضوی کی تقریروں سے ٹی ایل پی کو شہرت ملی۔
بریفنگ کے دوران شیخ رشید نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ احتجاج کے دوران تحریک لبیک کے آٹھ جبکہ پانچ پولیس اہلکار جان سے گئے ہیں۔ دوسری جانب آٹھ سو سے زائد پولیس اہلکار زخمی جبکہ تین سو کے قریب شدید زخمی ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بین الاقوامی جریدے کے ایک صحافی نے سوال کیا کہ فرانس حکومت نے اپنے شہریوں کو پاکستان چھوڑنے کا کہا ہے تو اس حوالے سے حکومت کا کیا موقف ہے؟ جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ ’ہم فرانسیسی شہریوں کو ہر طرح کا تحفظ دیں گے، کسی بھی سفارت کار کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں ہے اور حالات مکمل قابو میں ہیں۔‘
بریفنگ میں شریک وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک سوال کے جوب میں بتایا کہ ’فرانسیسی سفیر کو نکالنے کی بات قرارداد میں نہیں ڈالی گئی بلکہ سفیر کو نکالنے کے بارے میں بحث کا ذکر کیا گیا کیونکہ ریاست کسی پریشر گروپ کو خارجہ پالیسی بنانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ قرار داد بھی پرائیویٹ رکن کی جانب سے تھی حکومت کی جانب سے نہیں تھی۔‘
کیا سعد رضوی کو گرفتار کرنے کا فیصلہ درست تھا؟ اس سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ ’حکومت انہیں گرفتار نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن ایک طرف 20 اپریل والے احتجاج کو روکنے کے لیے مذاکرات جاری تھے، دوسری جانب تحریک لبیک احتجاج کی کال دے رہی تھی، اس لیے فیصلہ ناگزیر تھا۔‘
اس موقعے پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ’پہلے ہونے والے مذاکرات میں ٹی ایل پی غیر سنجیدہ تھی، وہ حکومت کو مذاکرات میں الجھا کر وقت حاصل کر رہے تھے۔‘
’ناموس رسالت کے معاملے پر پاکستان مغربی ممالک سے بات کرے گا‘
اس سے قبل بدھ کو ہی اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ ناموس رسالت کے معاملے پر پاکستان مغربی ممالک سے بات کرے گا اور وزیر اعظم خود مغربی ممالک کو اعتماد میں لینے والے ہیں۔
’ہم فرانسیسی شہریوں کو ہر طرح کا تحفظ دیں گے، کسی بھی سفارت کار کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں ہے اور حالات مکمل قابو میں ہیں۔‘
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عمران خان واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسلاموفوبیا پر بات کی اور ’پوری دنیا کا میڈیا یہ خبریں شائع کر رہا ہے کہ ختم نبوت کا سب سے بڑا سپاہی تو پاکستان کا وزیر داخلہ ہے۔‘
شیخ رشید نے کہا تھا کہ پیش کی جانے والی قرارداد میں شامل کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے معاملات ریاست کو طے کرنے ہیں اور کوئی گروہ یا فرد بے جا غیرقانونی دباؤ نہیں ڈال سکتا۔
وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد کے حوالے سے بتایا کہ 19 اپریل کو ہی فیصلہ ہو گیا تھا کہ 20 اپریل کو قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کر دی جائے گی۔
شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ آج ریاست کسی کے دباؤ میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات قابو میں تھے مگر بعد میں سوشل میڈیا پر غیرملکی سازشیں شروع ہوئیں۔
تحریک لبیک سے معاہدے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی سے معاہدے میں طے پایا ہے کہ تمام کارکنان کو رہا کیا جائے گا۔
ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے کسی کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔
تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے حوالے سے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سعد رضوی سمیت 210 ایف آئی آر قانونی عمل سے گزریں گی۔
انہوں نے بتایا کہ ایم پی او کے تحت گرفتار افراد کو رہا کیا جائے گا جبکہ 733 میں سے 669 افراد کو رہا کیا جا چکا ہے۔
احتجاج، دھرنے اور گرفتاریاں: اب تک کیا ہوا؟
ٹی ایل پی نے گذشتہ برس نومبر میں فرانس میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد ملک بھر میں احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جسے حکومت نے ایک معاہدے کے تحت منظور کر لیا تھا، جس کے لیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جانا تھا۔
تاہم اس پر عمل درآمد نہ ہونے پر ٹی ایل پی نے رواں برس 20 اپریل کو احتجاج کی کال دی تھی، لیکن اس سے قبل ہی لاہور میں جماعت کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر تحریک لبیک نے ملک بھر میں احتجاج کی کال دی، جس کے نتیجے میں گذشتہ دنوں میں ٹی ایل پی اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس میں پولیس اہلکاروں سمیت کئی افراد جان سے گئے جبکہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔
اس سب کے دوران وزارت داخلہ نے کابینہ کی منظوری سے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم جماعت قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
دوسری جانب حکومت اور ٹی ایل پی کے مابین مذاکرات کے تین ادوار بھی ہوئے اور بعدازاں اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانس کے سفیر کی بے دخلی کے معاملے پر بحث کی جائے اور تمام یورپی ممالک بالعموم اور فرانس بالخصوص کو اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔