مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ کے وسطی علاقے کی مرکزی گلیوں میں اسلامی فن تعمیر سے مزین رواشین کہلائی جانے والی کھڑکیاں اور حجازی دروازے آج بھی مسجد الحرام کا دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں۔
یہ آرکیٹیکچرل ڈیزائن مکہ کی شناخت اور ایک ایسی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے، جو آج بھی شہر کے باسیوں کے ذہنوں پر نقش ہے، جو اسے ماضی کے جھروکوں کی یاد اور مقدس شہر کی تاریخی دولت کے طور پر سنبھالے ہوئے ہیں۔
آرکیٹیکٹ طلال سمرقندی نے عرب نیوز کو بتایا کہ مکہ اور جدہ کی پرانی عمارتوں میں لکڑی سے بنی ہوئی یہ کھڑکیاں سورج کی روشنی اور تازہ ہوا کے گزر کو بہتر بناتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رواشین فن تعمیر کی جڑیں حجازی دور کا ورثہ ہیں، جن کو ہندوستان، انڈونیشیا اور سوڈان سے لائے گئے لکڑی کے نایاب اوزاروں سے تعمیر کیا جاتا تھا۔
سمر قندی نے مزید بتایا: ’فن تعمیر کا یہ عظیم ورثہ ان دروازوں، کھڑکیوں، چھتوں اور مشربیاس پر بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔‘
’اس دور کے لوگوں کا خیال تھا کہ گھر کی شناخت ان کے دروازوں سے ہوتی ہے اور اس طرح اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ان کے دروازے اور کھڑکیاں خوبصورت اور سجاوٹ کا عظیم نمونہ ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ لکڑی کا استعمال ماحولیاتی مقاصد کے لیے کیا جاتا تھا کیوں کہ لکڑی گرمی کا موثر توڑ ہے۔ لکڑی کے یہ فن پارے نہ صرف خوبصورتی کے لیے تھے بلکہ ان کو عمارت کو ٹھنڈا رکھنے اور وینٹیلیشن کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
سمر قندی کے بقول رواشین کو ایک اور مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا اور وہ مقصد تھا خواتین کا پردہ۔ ان جالی دار کھڑیوں سے مائیں پردے میں رہ کر گلیوں میں کھیلنے والے اپنے بچوں پر نظر بھی رکھ سکتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کھڑکیاں اور دروازے اس دور کے ’سوشل میڈیا‘ پلیٹ فارمز کا کردار بھی ادا کرتے تھے، جن کے ذریعے انہیں اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملتا تھا۔
اس کے علاوہ ان سجاوٹی کھڑکیوں کو تجارتی پورٹل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا جہاں سے لوگ گلیوں سے ٹوکری اور رسی کے ذریعے سامان بھی خرید سکتے تھے۔
ان سے مکہ کے عظیم ورثے اور آرکیٹیکچرل دلکشی کو فروغ ملتا ہے اور مختلف ثقافتی پس منظر سے آنے والے زائرین کے لیے یہ ایک نئی سیاحتی کشش کا باعث بھی ہیں۔