سعودی ولی عہد کا کہنا ہے کہ ان کا مسئلہ ایران کا منفی رویہ ہے اور وہ علاقائی اور عالمی ممالک کے ساتھ مل کر حل تلاش کر رہے ہیں۔ ’ایران ہمسایہ ملک ہے اور ہم ایران کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔‘
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے منگل کو ریاض میں مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ سیٹر (ایم بی سی) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ ایک سٹریٹجک پارٹنر ہے اور ریاض کے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ صرف چند اختلافات ہیں جن کو حل کرنے کے لیے وہ کام کر رہے ہیں۔ یہ انٹرویو انہوں نے وژن 2030 کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر دیا۔ سعودی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے اس منصوبہ کو پانچ سال مکمل ہوچکے ہیں۔
’ہمارا مسئلہ ایران کا منفی رویہ ہے چاہے وہ اس کے جوہری پروگرام یا اس کی ماورائے قانون بعض ممالک میں ملیشیاؤں کی حمایت یا اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام ہو۔ ہم خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان مسائل کے حل کی کوششیں کر رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہم ان پر قابو پا لیں گے اور سب کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات استوار کرسکیں گے۔‘
بائیڈن انتظامیہ
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک صدر جو بائیڈن کے زیر قیادت امریکی انتظامیہ سے 90 فی صد ایشوز پر متفق ہے اور باقی 10 فی صد اختلافی مسائل پر اتفاق رائے کے لیے ہم مل جل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہر خاندان کی طرح، جیسے بھائیوں میں تمام معاملات پر 100 فی صد اتفاق رائے نہیں ہوتا بالکل اسی طرح حکومتوں میں ہوتا ہے مگر ہم صدر بائیڈن کی پالیسی سے 90 فی صد متفق ہیں۔‘
شہزادہ محمد بن سلمان نے ڈیڑھ گھنٹے پر محیط اس طویل انٹرویو کے آخری حصے میں سعودی عرب کی خارجہ پالیسی اور یمنی بحران کے مستقبل کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔
ان سے جب سوال کیا گیا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کے مرکزی نکتے کی وضاحت کریں تو انہوں نے اس کا بالکل سادہ الفاظ میں جواب دیا: ’ہماری خارجہ پالیسی کے مفادات وہی ہیں جو سعودی عرب کے مفادات ہیں۔‘
ولی عہد نے یہ بھی کہا کہ مملکت اپنے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کو قبول نہیں کرے گی۔
یمن
سعودی ولی عہد نے یمن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں کے قریب مسلح ملیشیا کو قبول نہیں کرے گا۔
انہوں نے یمن میں جاری بحران کے سیاسی حل سے متعلق اپنے منصوبہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سعودی عرب مذاکرات کی میز پر ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کی موجودگی کو مسترد نہیں کرے گا۔‘
شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں حوثیوں کے ایرانی نظام سے قریبی تعلقات قائم ہیں لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ وہ عرب ہیں اور بالآخر انہیں تنازع کے خاتمے کے لیے اپنے عرب بھائیوں کے ساتھ ہی مل بیٹھنا ہوگا۔‘
آرمکو حصص
سعودی عرب کے ولی عہد نے کہا کہ وہ سرکاری تیل فرم سعودی آرامکو کا ایک فیصد حصہ ایک معروف عالمی توانائی کمپنی کو فروخت کرنے کے حوالے سے بات چیت کر رہی ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ 2019 کے اواخر میں سعودی بورس پر فہرست میں شامل دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو اگلے ایک یا دو سال کے اندر بین الاقوامی سرمایہ کاروں سمیت مزید حصص فروخت کر سکتی ہے۔ ’اب ایک اہم معاہدے میں ایک معروف عالمی توانائی کمپنی کی طرف سے ایک فیصد حصص کے حصول کے لیے بات چیت ہو رہی ہے جس سے آرامکو کی فروخت میں اضافہ ہوگا۔‘ انہوں نے مزید وضاحت کیے بغیر کہا کہ ایک بڑا ملک ایسا کر رہا ہے۔
سعودی عرب کو تیل کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدن بڑھتی ہوئی ملکی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی جا رہی تھیں، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سعودی معیشت کو متنوع بنانے کی غرض سے ویژن 2030 پیش کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’تیل کی دریافت کے وقت ہماری آبادی 20 سے 30 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ اب سعودی شہریوں کی تعداد دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس لیے ہم 1960 سے 1990 کے عشروں کے دوران میں جس طرز زندگی کے عادی اور دل دادہ ہو چکے ہیں، اس کی ضروریات کو صرف تیل کی آمدن سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔‘
شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا: ’اگر ہم پرانی ڈگر ہی پر چلتے رہتے تو بلاشبہ آبادی میں اضافے کے پیش نظر آئندہ 20 یا 10 سال میں ہمارے اس معیار زندگی پر اثرات مرتب ہوتے جس کے ہم گذشتہ نصف صدی کے دوران عادی ہو چکے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ دیگر کمپنیوں کے ساتھ مختلف سٹیک کے لیے بات چیت ہو رہی ہے اور آرامکو کے حصص کا کچھ حصہ (سعودی) پبلک انویسٹمنٹ فنڈ اور سعودی بورس کی شامل کمپنیوں کو ایک حصہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔
انکم ٹیکس
شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح کیا کہ ملک میں انکم ٹیکس متعارف کرانے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ سعودی عرب میں اضافی قدری ٹیکس (ڈبلیو اے ٹی) کی شرح میں بتدریج کمی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نفاذ ان کے لیے ذاتی طور پر ایک تکلیف دہ فیصلہ تھا کیونکہ میں کسی سعودی شہری کو کسی بھی طرح تکلیف میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ میرا کام تو یہ ہے کہ میں انہیں طویل المیعاد مستقبل یا آئندہ 20 سے 30 سال کے لیے ضمانت دوں۔‘
شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ وہ سعودی عرب میں موجود ہر چیز سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں خواہ یہ تیل کا شعبہ ہے یا کوئی اور وسائل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال پبلک انویسٹمنٹ فنڈ سعودی عرب میں مختلف منصوبوں پر 160 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔
سعودی ولی عہد نے گذشتہ ماہ سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت داری کے ایک منصوبہ کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ سعودی عرب آئندہ 10 سال کے دوران مختلف منصوبوں پر اتنی رقوم خرچ کرے گا جو اس نے گذشتہ 300 سال میں بھی صرف نہیں کی ہے۔
اس رپورٹ کو مرتب کرنے میں روئٹرز، اے ایف پی اور العربیہ چینل کی مدد لی گئی۔