چہرے پر ماسک، سروں پر سرجیکل کیپ پہنے مختلف عمر کے افراد لنگر خانے میں مصروف تھے۔ کوئی دیگ میں سالن پکا رہا تھا تو کوئی دوسری طرف ایک بڑے ٹب نما برتن میں شربت تیار کر رہا تھا۔ کوئی شربت میں چینی ڈال رہا ہے تو دوسرا لیموں نچوڑ رہا ہے۔
لنگر خانے کے ایک کونے میں تندور بھی موجود تھا، جہاں کچھ لوگ روٹی پکانے میں مصروف تھے۔ ان میں سے کوئی آٹے کے پیڑے بنا رہا تھا تو کوئی پکی ہوئی روٹیاں سائیڈ پر بنے ریک میں ترتیب سے رکھ رہا تھا۔
لنگر خانے میں چائے بنانے کی تیاری بھی ہو رہی تھی۔ سٹیل کی بالٹیوں میں موجود دودھ کو دیگ میں ڈالا گیا اور پھر اس میں پانی، چینی اور پتی شامل کی گئی۔ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ وہ دیگ جو شادیوں میں عموماً چاول پکانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس میں چائے بنائی جا رہی تھی۔
سالن تیار ہوگیا۔ شربت اور چائے بھی تیار ہے۔ کچھ لوگ سٹیل کی بالٹیاں سالن کے دیگ کے سامنے رکھ رہے ہیں جبکہ باقی شربت کے ٹب اور چائے کی دیگ کے سامنے قطار میں بالٹیوں کو رکھ رہے ہیں۔
تقسیم کرنے کا وقت ہے۔ مغرب کی اذان میں تقریباً 40 منٹ باقی ہے، تاہم اس کھانے کی تقسیم عصر کی نماز کے بعد شروع ہو جاتی ہے اور ہر ایک گروپ کو اس میں شامل ارکان کے مطابق کھانا ملتا ہے۔
سالن، چائے اور شربت کی بالٹی اٹھا کر یہ لوگ قطار میں اپنے رہنے کی جگہوں کی طرف بڑھ جاتے ہیں جہاں ان بالٹیوں سے کھانا، شربت اور چائے ہر شخص کے لیے چھوٹے برتنوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ایک پورا ہال لوگوں سے بھرا ہوا ہے، جہاں تین سے 10 افراد الگ الگ گروپ کی صورت میں بیٹھے ہیں۔ کوئی تربوز تو کوئی سیب کاٹ کر پلیٹ میں سجا رہا ہے جبکہ بعض لوگ چٹنی بنانے میں مصروف ہیں۔
اس ہال میں نوجوان، بڑی عمر کے اور بزرگ افراد بھی موجود ہیں۔ یہ سب اسی ہال میں سوتے بھی ہیں، کھانا بھی کھاتے ہیں بلکہ ان لوگوں کا آدھے سے زیادہ وقت اسی ہال میں گزرتا ہے۔
مغرب کی اذان ہوتی ہے اور ہال میں موجود تمام لوگ کھجور سے روزہ افطار کرتے ہیں۔
یہ مناظر خیبرپختونخوا کے ضلع دیر پائین کے شہر تیمرگرہ میں واقع ڈسٹرکٹ جیل کے تھے، جہاں انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم اس غرض سے گئی تھی کہ یہ جانا جاسکے کہ ماہ رمضان میں جیل کے اندر قیدیوں کے معمولات یا روٹین کیا ہوتی ہے۔
تیمرگرہ ڈسٹرکٹ جیل کی عمارت کسی پرانے طرز تعمیر کی طرح ایک خوبصورت ریسٹ ہاؤس سے کم نہیں ہے۔ جیل کے اندر بہت سے درخت موجود ہیں جبکہ جس جگہ پر قیدیوں کے رہنے کا بندوبست ہے، وہاں خوبصورت لان بھی بنائے گئے ہیں۔
جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بخت روان نے بتایا: 'جیل کے بالائی حصے میں کھڑے ہو کر پورے تیمرگرہ شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ جیل کے اندر صبح 11 سے شام چھ بجےتک قیدیوں کو اجازت ہے کہ وہ اس لان میں گھومیں پھریں لیکن اس کے بعد ان کو بیرکوں میں جانا ہوتا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیمرگرہ ڈسٹرکٹ جیل 1990 میں قائم کی گئی تھی۔ ملاکنڈ ڈویژن میں جب حالات خراب ہوئے تھے، تو اس جیل میں بہت زیادہ قیدی موجود تھے تاہم اب یہاں قیدیوں کی تعداد 350 کے قریب ہے جس میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
گل زرین اسی جیل میں گذشتہ 18 ماہ سے قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ زرین کا تعلق ضلع دیر پائین سے ہے۔ جب ان سے رمضان میں سحری وافطار سمیت پورے دن کی روٹین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 'رات کو تقریباً دو بجے سحری شروع ہو جاتی ہے اور ہر ایک بیرک کو سالن سمیت دیگر اشیا لنگر خانے سے مہیا کی جاتی ہیں۔'
زرین نے مزید بتایا کہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد بعض قیدی سو جاتے ہیں جبکہ کچھ مسجد میں بیٹھ کر تلاوت قران کرتے ہیں اور بعد میں سو جاتے ہیں اور پھر تقریباً 11 بجے اٹھنے کے بعد ظہر کی نماز اور لنگر خانے میں افطاری کے لیے تیاری شروع ہو جاتی ہے، جو عصر کی نماز تک مکمل ہوجاتی ہے۔
گل زرین کے مطابق: 'عصر تک سالن، شربت، چائے، روٹی وغیرہ تیار ہوجاتی ہے اور عصر کی نماز کے بعد قیدیوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ کچھ قیدی لنگر خانے سے کھانا لا کر اسے تڑکہ بھی لگاتے ہیں کیونکہ قیدیوں کو اجازت ہے کہ وہ اپنے لیے کھانا بنا سکتے ہیں۔'
جب ان سے جیل کے مینیو کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 'مینیو بالکل ٹھیک ہے کیونکہ ہفتے میں دو مرتبہ چکن، ایک مرتبہ چاول جبکہ سبزی، دال، آلو اور انڈے بھی ہفتے کے مینو میں شامل ہیں۔'
انہوں نے مزید بتایا: 'رمضان میں کھانے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دیگر دوستوں کے ساتھ روزہ اچھا گزرتا ہے تاہم گھر، والدین اور بیوی بچوں کی یاد ضرور ستاتی ہے۔'
اس حوالے سے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بخت روان نے بتایا کہ ماضی میں یہی مشہور تھا کہ جیل کے اندر بہت خراب کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور وہ حقیقت تھی لیکن اب حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں۔
بخت روان کے مطابق: 'اب جیل کے اندر جو کھانا دیا جاتا ہے، یہی کھانے تقریباً تمام گھروں میں تیار کیے جاتے ہیں۔ مینیو میں گوشت سمیت چکن، چاول، سبزیاں اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔'
لنگر خانے میں کھانا اور روٹی پکانے سمیت جتنا بھی کام ہے، وہ لنگر خانے میں موجود مخصوص قیدی کرتے ہیں، جنہیں کھانے پکانے کا پہلے سے تجربہ ہوتا ہے۔
جو قیدی لنگر خانے میں کام کرتے ہیں، وہ لنگر خانے کے اندر ہی بیرک میں رہتے ہیں۔ تیمرگرہ جیل میں لنگر خانے کی عمارت اور لنگر خانے میں کام کرنے والے قیدیوں کا بیرک بالکل متصل ہے۔
ہر قیدی کے لیے خاص مقدار کے مطابق خوراک
عام دنوں کے علاوہ ماہ رمضان میں قیدیوں سحری اور افطار میں کھانے کے لیے کچھ مقدار میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
تیمرگرہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ محمد عارف خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماہ رمضان میں قیدیوں کی خوارک کی مقدار عام دنوں کے مقابلے میں بڑھا دی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رمضان میں فی قیدی کو چائے کے لیے 100 ملی لیٹر دودھ، 30 گرام شوگر، تین گرام چائے کے پتے اور 58 گرام کوئلہ یا چولہا جلانے کے لیے لکڑی ملتی ہے۔
اسی طرح عارف کے مطابق رمضان میں شربت کے لیے فی قیدی کو 50 گرام شوگر، 50 گرام شربت اور 200 گرام برف ملتی ہے۔
عارف خان نے بتایا،’ اس حساب سے یہ راشن قیدیوں کے لیے ملتا ہے اور لنگر میں سب کے لیے اسی حساب پر کھانا تیار کیا جاتا ہے۔‘
’قانون میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی قیدی چاول کی ڈائٹ پر ہے تو فی قیدی ایک وقت کے کھانے کے لیے 300 گرام سیلہ چاول ملتے ہیں ہیں۔‘
عام دنوں میں صبح ناشتے کے لیے فی قیدی 75 گرام دودھ، 20 گرام شوگر، تین گرام چائے کے پتے، 50 گرام گھی، 80 گرام سویاں اور سویوں کے لیے 70 گرام گھی اور 300 گرام دودھ بھی ملتا ہے۔
دوپہر کے کھانے میں عارف کے مطابق فی قیدی کو 125 گرام بڑا گوشت، 100 گرام آلو، 25 گرام گھی، 40 گرام ٹماٹر، 280 گرام آٹا، 40 گرام پیاز، سات گرام نمک اور 3 گرام مصالہ ملتا ہے۔
ڈنر کی بات کی جائے تو فی قیدی کو 300 گرام سیلہ چاول، 200 گرام بڑا گوشت، 50 گرام گھی، 50 گرام ٹماٹر، 50 گرام پیاز، سات گرام نمک اور پانچ گرام چاول کے لیے گرم مصالہ ملتا ہے۔