گجرات کے علاقے موضع بھگوال میں دو مئی دن دس بجے مبینہ طور پر شادی سے انکار پر ایک 23 سالہ خاتون کنزیٰ بی بی کو ان کے گھر کے باہر گولی مار کے قتل کر دیا گیا۔
کنزیٰ کے مبینہ قتل کی ایف آئی آر ان کے والد ظفر اقبال کی مدعیت میں تھانہ گلیانہ میں درج کر لی گئی، لیکن ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہو سکے۔
ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق: 'دو مئی کی صبح کنزیٰ بی بی گھر کے بیرونی دروازے کے قریب کام کاج میں مصروف تھی جبکہ ان کے والد، والدہ اور والدہ کے چچا زاد بھائی جاوید اقبال گھر کے صحن میں بیٹھے تھے کہ اچانک شاہ زیب نامی لڑکا اپنے بھائی جہانگیر عرف ببلو اور ایک نامعلوم شخص کے ہمراہ 30 بور کی پستول لیے زبردستی بیرونی دروازے کو دھکا مار کر گھر کے اندر داخل ہوئے۔'
ظفر اقبال کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں مزید لکھا ہے: 'جہانگیر نامی لڑکے نے للکار کر کہا اسے میرے بھائی شاہ زیب کو رشتہ نہ دینے پر قتل کردو، جس پر شاہ زیب نے اپنی دستی پستول سے کنزیٰ پر گولی چلائی جو ان کی کنپٹی کے بائیں جانب لگی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گئیں۔ ہمارے شور و وا ویلا کرنے پر ملزمان فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ ہم سب اس کے چشم دید گواہ ہیں۔'
ظفر اقبال کی مقتولہ سمیت چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جبکہ وہ خود زمینداری کا کام کرتے ہیں۔
کنزیٰ کی والدہ کے چچا زاد بھائی جاوید اقبال جو اس وقت موقع واردات پر موجود تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'جب یہ قتل ہوا اس وقت میں اور مقتولہ کے والد گھر کے ایک کمرے میں بیٹھے زمینوں کے حوالے سے بات کر رہے تھے جبکہ لڑکی کی والدہ جانوروں کے باڑے میں مویشیوں کو چارہ ڈال رہی تھیں۔ کنزیٰ گھر کے بیرونی دروازے کے پاس بیٹھی برتن دھو رہی تھی، ہمیں تو اچانک گولی چلنے کی آواز آئی۔ جب ہم باہر بھاگے تو دیکھا شاہ زیب، جہانگیر اور ایک اور شخص وہاں سے بھاگ رہے تھے جبکہ کنزیٰ خون میں لت پت پڑی تھی اور اس کی جان نکل چکی تھی۔'
جاوید اقبال نے بتایا کہ شاہ زیب کے والد خالد حسین قتل سے ایک روز قبل میری بہن کے ہاں کنزیٰ کا رشتہ شاہ زیب کے لیے مانگنے آئے تھے، مگر ہم نے انہیں بتایا کہ کنزیٰ کی منگنی ان کے ماموں زاد سے طے پا چکی ہے اس لیے اب یہ رشتہ نہیں ہو سکتا۔'
بقول جاوید اقبال: 'شاہ زیب کافی عرصے سے کنزیٰ کو پسند کرتا تھا، جب ہم نے رشتے سے انکار کیا تو گھر سے جاتے ہوئے شاہ زیب کے والد نے دھمکی دی تھی کہ ان کے بیٹے شاہ زیب اور جہانگیر کنزیٰ اور اس کے منگیتر دونوں کو جان سے مار دیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ قتل باپ اور بیٹوں کے باہم صلاح مشورے سے ہوا ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حوالے سے ڈی پی او گجرات کے ترجمان عمران فاروق سوہی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہماری اطلاع کے مطابق شاہ زیب کنزیٰ کو پسند کرتا تھا اور پہلے بھی اس کے گھر رشتہ بھیج چکا تھا، پھر وہ ملک سے باہر کام کے سلسلے میں چلا گیا۔ اب جب وہ واپس آیا تو اس نے پھر کنزیٰ کے رشتے کے لیے اپنے والدین کو ان کے گھر بھیجا۔'
ترجمان ڈی پی او کے مطابق: 'لڑکی کے والد کے انکار کے بعد شاہ زیب دو مئی کی صبح کنزیٰ کے گھر پہنچا اور اسے اپنے ساتھ بھاگ کر شادی کا کہا، جس پر کنزیٰ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ شادی کے لیے گھر والوں کا راضی ہونا ضروری ہے اور وہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ ان کے اسی جواب پر شاہ زیب کو غصہ آیا اور اس نے کنزیٰ پر گولی چلا دی۔'
عمران فاروق سوہی نے مزید بتایا کہ 'شاہ زیب جن دو لڑکوں کو ساتھ لے کر گیا تھا ان میں سے ایک اس کا بھائی تھا اور ایک دوست اور ان دونوں کو وہ نکاح کے وقت گواہان کے طور پر ساتھ لے کر گیا تھا۔'
عمران فاروق کے مطابق: 'جب یہ واردات ہوئی اس وقت مقتولہ گھر پر اکیلی تھیں۔ جب یہ سارا جھگڑا ہوا اس وقت گلی سے کچھ بچے کھیلتے ہوئے گزر رہے تھے، انہوں نے یہ سارا جھگڑا ہوتے بھی دیکھا اور جب گولی چلی تو وہ بھاگے۔ مقتولہ کی والدہ گھر کے ساتھ ہی اپنے ڈیرے پر کوئی کام کر رہی تھی، انہوں نے بھی گولی کی آواز سنی اور وہ بھی باہر گلی کی طرف بھاگیں۔ سامنے سے آتے بچوں سے انہوں نے پوچھا کہ گولی کہاں چلی ہے تو بچوں نے بتایا کہ آپ کے گھر چلی ہے۔ اس دوران ملزمان جب فرار ہوئے تو انہیں بھاگتے ہوئے بھی کنزیٰ کے گھر والوں نے دیکھا۔'
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے جو کال ریکارڈز ٹریس کیے ہیں، اس میں شاہ زیب کے دوست کا موبائل وہیں سے ٹریس ہوا جہاں قتل ہوا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 'ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا لیکن شاہ زیب کے والد کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے رکھا ہے اور امید ہے کہ ملزمان بھی جلد پولیس کی گرفت میں ہوں گے۔'
انڈپینڈنٹ اردو نے ملزمان کے گھر والوں سے بھی رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔