مسابقتی کمیشن پاکستان (کمپٹیشن کمیشن یا سی سی پی) کی تحقیقات کے نتیجے میں مرغیوں کی خوراک بنانے والی کئی کمپنیوں کے مبینہ گٹھ جوڑ کا انکشاف ہوا ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ دو سالوں کے دوران ملک میں پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) ملکی معیشت کی بہتری کے لیے کمپنیوں کے مابین صحت مند مسابقت کو یقینی بنانے کی کوششیں کرنے والا سرکاری ادارہ ہے۔
سی سی پی کے ترجمان اسفندیار خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تحقیقات میں پولٹری فیڈ بنانے والے انیس ایسی کمپنیوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو مبینہ گٹھ جوڑ میں ملوث رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کمپنیوں نے پولٹری فیڈ کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے ایکا کر رکھا تھا، اور ان کی مسابقت مخالف سرگرمیاں ملک میں پولٹری فیڈ کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنیں۔
انہوں نے کہا کہ گٹھ جوڑ کرنے والی 19 کمپنیاں پاکستان کے چاروں صوبوں سے ہیں۔
ترجمان سی سی پی نے کہا کہ ان کمپنیوں کو اظہار وجوہ کے نوٹس بھیجے جائیں گے، جن کے انہیں پندرہ روز میں تحریری جواب دینا ہو گا، جس کے بعد سی سی پی بینچ کے سامنے وکلا کے ذریعے مقدمہ لڑنا ہو گا۔
واضح رہے کہ پولٹری فیڈ برائلر گوشت اور انڈوں کی لاگت کا تقریبا 75 سے 80 فیصد ہے، اور پولٹری فیڈ کی قیمتوں میں اضافے سے مرغی اور انڈوں کی قیمتیں اوپر جاتی ہیں۔
اسفندیار خٹک نے مزید کہا کہ پولٹری فیڈ ملوں کی ملی بھگت دسمبر 2018 سے دسمبر 2020 کے درمیان ہوئی، جس سے مرغیوں کی خوراک کی قیمتوں میں اوسطا 836 روپے فی 50 کلوگرام اضافہ ہوا، جو گزشتہ نرخوں سے 32 فیصد زیادہ تھا۔
ادارہ شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2020 کے دوران مرغی اور انڈوں کی قیمتوں میں بالترتیب 18.31 فیصد اور 5.2 فیصد اضافہ ہوا۔
اسفندیار خٹک کا کہنا تھا کہ مرغی اور انڈوں کی قیمتوں میں اس اضافے کی وجہ پولٹری فیڈ کے نرخ میں 100 روپے فی پچاس کلو گرام زیادتی تھی۔
پولٹری فیڈ تیار کرنے والی کمپنیوں نے نہایت منظم انداز میں دسمبر 2018 سے دسمبر 2020 کے دوران ہر مہینے اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں مرغی اور انڈوں کے نرخ بھی ہر مہینے اوپر جاتے گئے۔
سی سی پی کے ایک بیان کے مطابق وزیر اعظم سٹیزن پورٹل اور سی سی پی کے آن لائن کمپلینٹ سسٹم پر پولٹری فیڈ کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کئی شکایات موصول ہوئیں، جن میں الزام لگایا گیا تھا کہ بعض معروف پولٹری فیڈ بنانے والی کمپنیوں نے ملی بھگت سے قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔
شکایات درج کرانے والوں میں عام پاکستانی شہریوں کے علاوہ پولٹری فارمرز مالکان بھی شامل تھے، جن کے کاروبار فیڈ کی قیمتوں میں اضافے کے باعث متاثر ہو رہے تھے۔
ان شکایات کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی نے تحقیقات کا آغاز کیا، اور اس سال فروری میں پولٹری فیڈ تیار کرنے والے دو بڑے کارخانوں پر چھاپہ مارا گیا، جس کے نتیجے میں فیڈ کمپنیوں کے مابین قیمتوں کے حوالے سے حساس معلومات کے تبادلے اور گٹھ جوڑ کے شواہد ملے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان کے مطابق تحقیقات سے مزید پتہ چلا کہ 19 فیڈ ملوں کے عہدیداران ایک واٹس ایپ گروپ کا استعمال کر رہے تھے جہاں ایک فیڈ پروڈیوسر قیمت میں ایک خاص حد تک اضافے کا اعلان کرتا، اس پر بحث ہوتی اور اضافے کی مقدار اور تاریخ کے متعلق بھی گفتگو ہوتی، جس کے بعد مل مالکان ان فیصلوں پر بیک وقت عمل پیرا ہوتے۔
بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس واٹس ایپ گروپ پر ہونے والی بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ مل مالکان کیسے قیمتوں میں اضافہ اور نرخ بڑھانے کی تاریخ کا تعین کرنے سے متعلق گفتگو کرتے تھے۔
تحقیقات سے مزید پتہ چلا ہے کہ پولٹری فیڈ ملوں نے دسمبر 2018 سے دسمبر 2020 کے دوران کم از کم گیارہ مرتبہ مربوط انداز میں قیمتوں میں تبدیلی کی، اور صرف ایک ہی تاریخ پر قیمتوں میں تبدیلی کی گئی جو بالکل یکساں تھی۔
پولٹری فیڈ تیار کرنے والے کارخانے ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں اور کمپٹیشن ایکٹ 2010 کے سیکشن چار کے تحت قیمتوں پر کسی بھی طرح کا تبادلہ یا بحث ممنوع ہے۔
اسفندیار خٹک نے کہا کہ 19 کمپنیوں نے مذکورہ قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور انکوائری کے نتائج کی روشنی میں انہیں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ کارٹلائزیشن ثابت ہونے کی صورت میں ہر کمپنی کو کمپٹیشن ایکٹ 2010 کے تحت ساڑھے سات کروڑ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے، جو کارخانے کے گذشتہ سال کی سالانہ فروخت کا 10 فیصد بھی ہو سکتا ہے۔