پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر محمد عارف علوی نے ہفتے کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کاسٹ کرنے میں سہولت دینے اور انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا استعمال یقینی بنانے سے متعلق صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا۔
صدر علوی نے الیکشن (دوسرا ترمیمی) آرڈیننس 2021 جاری کیا جس کے ذریعے انتخابات سے متعلق قانون الیکشن ایکٹ 2017 میں دو ترامیم کی گئیں۔
صدر مملکت کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہا گیا: ’الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن (1) 94 اورسیکشن 103 میں ترامیم کی گئی ہیں۔‘
تاہم ماہرین کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مذکورہ آرڈیننس ’محض عوام کو دھوکہ دینے‘ کے لیے جاری کیا ہے کیونکہ الیکشن ایکٹ میں دونوں ترامیم کے فوراً عملی نفاذ کا کوئی امکان نہیں۔
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر کا کہنا تھا: ’پوچھنے کی بات یہ ہے کہ آئندہ 240 روز کے دوران ملک میں کون سے انتخابات ہونا ہیں جس کے لیے حکومت کو اس آرڈیننس کی ضرورت پڑ گئی۔‘
واضح رہے کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 89 صدر مملکت کو آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کا حق دیتا ہے، تاہم صدارتی آرڈیننس کی ابتدائی عمر محض 120 دن ہوتی ہے جس دوران آئین اسے پارلیمان کے سامنے پیش کرنا ضروری قرار دیتا ہے۔
صدارتی آرڈیننس اجرا کے بعد 120 روز میں پارلیمان کے سامنے پیش نہ ہونے کی صورت میں ختم ہو جاتا ہے یا اسے دوبارہ مزید اتنی ہی مدت کے لیے جاری کیا جا سکتا ہے۔
البتہ دوسری مرتبہ بھی پارلیمان کے سامنے پیش نہ ہونے کی صورت میں آرڈیننس اپنی موت آپ مر جاتا ہے، یوں کسی صدارتی آرڈیننس کی زیادہ سے زیادہ عمر 240 روز ہی ہو سکتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے تاہم انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آرڈیننس کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی اسے پارلیمان کے سامنے منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے وکیل کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ’ایسی جوہری تبدیلیاں پس پردہ کی جاتی ہیں اور حتمی فیصلہ ہونے کے بعد انہیں عوام کے سامنے لایا جاتا ہے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب آنے والے 240 دونوں میں عام انتخابات کا امکان نہیں تو اس آرڈیننس کے اجرا کا کیا مقصد ہوا؟
’ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی کون سا ابھی فوراً ووٹ کا حق استعمال کرنے جا رہے ہیں جو اس آرڈیننس کی ضرورت پیش آ گئی؟ اور اگر پارلیمان نے اس قانون کو رد کر دیا تو پھر حکومت کہاں کھڑی ہو گی؟‘
واضح رہے کہ پاکستان میں گذشتہ عام انتخابات جولائی 2018 میں منعقد ہوئے تھے لہٰذا آئین پاکستان کے مطابق آئندہ عام انتخابات 2023 سے قبل نہیں ہوں گے۔
صدر عارف علوی نے کچھ دن قبل جیو نیوز کے ایک پروگرام میں واضح کیا تھا کہ ای وی ایم سے متعلق آرڈیننس فوراً جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے لیے بروقت ووٹنگ مشینز تیار کی جا سکیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر عام انتخابات کے لیے سوا تین لاکھ ووٹنگ مشینز درکار ہوں اور ہم روزانہ ایک ہزار مشینز بھی بنائیں تو وقت کم ہے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ 13-2012 میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے امکانات پر غور کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں معلوم ہوا کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کی نگران وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ثانیہ نشتر نے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کو ایک بریفنگ بھی دی تھی لیکن کمیٹی کی سفارش یہی تھی کہ ایسا ممکن نہیں۔
سابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق سب سے بڑا مسئلہ ان ممالک میں پیش آئے گا جہاں جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام نافذ ہے۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے عرب ملکوں کی مثال دی اور کہا کسی بھی عرب ملک کی حکومت اجازت دے گی کہ اس کے شہری وہاں مقیم پاکستانیوں کو ایک جمہوری انداز میں ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے دیکھیں؟
’کیا بادشاہتیں اپنے ملکوں میں کسی جمہوری عمل کو ہونے کی اجازت دے سکتی ہیں، بھلے وہ وہاں مقیم کسی دوسرے ملک کے لوگ ہی کیوں نہ کر رہے ہو؟‘
بیرون ملک مقیم پاکستانی کیسے ووٹ ڈالیں گے؟
آئین پاکستان کے آرٹیکل 94(2) کے تحت ’اوورسیز پاکستانی‘ کا مطلب پاکستان شہریت ایکٹ کے تحت پاکستان کی شہریت رکھنے والا یا قومی ڈیٹا بیس اور رجسٹریشن اتھارٹی آرڈیننس کے تحت پاکستانی کا قومی شناختی کارڈ رکھنے والا کسی دوسرے ملک میں چھ ماہ سے کم عرصے سے مستقل یا عارضی طور پر مقیم شخص ہے۔
اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن (او پی ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان سے باہر مقیم پاکستانیوں کی تعداد 90 لاکھ سے زیادہ ہے، جن میں سب سے زیادہ عرب ممالک میں روزگار کے سلسلے میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں دنیا بھر میں مقیم لوگ پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں کیسے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں گے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی ایسی مثال موجود نہیں کہ کسی ملک کے شہری دوسری ملک میں رہتے ہوئے اپنے وطن کے انتخابات میں حصہ لے سکیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ریاست پاکستان ایسا چاہتی ہے تو اس کا واحد حل آن لائن ووٹنگ ہی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ تو بیرون ملک مقیم پاکستانی انتخابات کے لیے وطن آسکتے ہیں اور نہ ہی ان ممالک میں پولنگ سٹیشن بنا کر الیکشن کروائے جا سکتے ہیں۔
’جو واحد طریقہ میری سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ویب سائٹ پر کوئی لنک دے دے جس کے ذریعے سمندر پار پاکستانی اپنے ووٹ کا حق استعمال کر سکیں گے۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ آن لائن ووٹنگ سے متعلق مسائل بہت زیادہ ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بھی اس پر تحفظات موجود ہیں۔
کنور دلشاد نے کہا کہ حکومت نے سٹی ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر ہی آرڈیننس جاری کر دیا اور پورا امکان ہے کہ اسے عدالت میں چیلنج کر دیا جائے گا۔
ترمیمی آرڈیننس میں کیا ہے؟
ہفتے کو جاری ہونے والے الیکشن (دوسرا ترمیمی) آرڈیننس 2021 کے تحت الیکشن ایکٹ کی شق (1)94 میں ترمیم کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے، جبکہ شق 103 میں ہونے والی تبدیلی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پابند بتانی ہے کہ وہ ملک میں ہونے والے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا استعمال کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شق 94(1) میں ترمیم سے پہلے لکھا تھا: ’اس طرح کے ووٹنگ کی تکنیکی افادیت ، رازداری ، سلامتی اور مالی امکانات کا پتہ لگانے کے لئے کمیشن ضمنی انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ذریعے ووٹنگ کے لیے پائلٹ پروجیکٹس کا انعقاد کرسکتا ہے اور اس کے نتائج حکومت کے ساتھ شیئر کرے گا، جو رپورٹ موصول ہونے کے بعد 15 روز کے اندر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کرے گی۔‘
ترمیم کے بعد شق 94(1) میں لکھا گیا: ’کمیشن نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) یا کسی بھی دوسری اتھارٹی یا ایجنسی کی مدد سے بیروم ملک مقیم پاکستانیوں کو اس قابل بنائے گا کہ وہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنے رہائشی ملک سے ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کر سکیں۔‘
الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 103 ترمیم سے قبل کچھ یوں تھی: ’کمیشن تکنیکی افادیت کا اندازہ لگانے کے لیے ووٹرز کی تصدیق، کاسٹنگ اور ووٹوں کی گنتی کے لیے موجودہ دستی طریقہ کار کے علاوہ ضمنی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور بائیو میٹرک تصدیق کے نظام کے استعمال کے لیے پائلٹ پراجیکٹس کا انعقاد کرسکتا ہے، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور بائیو میٹرک تصدیقی نظام کی رازداری، سلامتی اور مالی فزیبلٹی اور اس کے نتائج حکومت کے ساتھ شیئر کریں گے، جو رپورٹ کی وصولی کے بعد کسی ایوان کے اجلاس کے آغاز سے پندرہ دن کے اندر اندر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔‘
صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کے بعد شق 103 کچھ یوں ہے: ’کمیشن عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) خریدے گا۔‘