افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ برطانیہ کو پاکستان اور افغانستان کے مابین سکیورٹی تعاون کے معاہدے کا کام سونپا گیا ہے تاکہ وہ ایک دستاویز پر دستخط کرسکیں۔
جرمن میگزین ’ڈر شپیگل‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ برطانیہ افغانستان اور پاکستان کے مابین سلامتی اور دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے میں مدد فراہم کرنا چاہتا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ پاکستان کے افغانستان میں جائز مفادات ہیں اور افغانوں کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ’ہم سکیورٹی معاہدے پر دستخط اور افغانستان اور پاکستان کو قریب لانے کے لیے برطانیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔‘
زلمے خلیل زاد نے یہ بیان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس سٹاف سر نکولس پیٹرک کارٹر کے پیر کو ایک روزہ دورہ کابل کے بعد دیا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے برطانوی چیف آف ڈیفنس جنرل سرنکولس پیٹرک کارٹر کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے تفصیلی ملاقات میں افغان امن عمل اور پاک افغان تعلقات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
صدر اشرف غنی سے ملاقات کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس آئی کے سربراہ کے ہمراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی۔ سرکاری حلقوں میں آرمی چیف کا دورہ کابل اہمیت کا حامل اور کامیاب دورہ قرار دیا جا رہا ہے۔
دورے سے متعلق جاری فوج کے بیان میں کہا گیا تھا کہ اس میں سکیورٹی، دفاعی تعاون اور مؤثر بارڈر مینجمنٹ پر بھی غور کیا گیا۔
صحافی ایس خان کے مطابق افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف اور سرنکولس سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ڈپلومیسی کو ترجیح دیتے ہوئے انہوں نے ان سے ملاقات کی۔
امراللہ صالح نے کہا کہ ایک کہاوت ہے کہ اگر کوئی گرہ ہاتھوں سے کھول دیا جاسکتا ہے تو دانتوں کا استعمال ضروری نہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان دنیا کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ ’خطے اور پڑوسیوں کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘
افغانستان اور پاکستان کے مابین سکیورٹی تعاون کا معاملہ دو ماہ سے گرم ہے جس میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں اور داعش اور ٹی ٹی پی کے قیدیوں کی پاکستان حوالگی کا مطالبہ شامل ہے۔
پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنے اور سکیورٹی تعاون میں سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے۔
گذشتہ تین سالوں سے افغانستان میں قیام امن اور پاک افغان تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان نے اپنا کرداد مزید بڑھانے میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
6 جون کو پاکستان نے افغانستان کے لیے محمد صادق کو نمائندہ خصوصی مقرر کیا جس کا مقصد امن معاہدہ کو عملی بنانے, بین الافغان مذاکرات میں کرداد ادا کرنے اور پاکستان اور افغانستان کے مابین اقتصادی ترقی اور تجارتی ہجم کو بڑھانا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے میں کچھ حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔
پاکستان کے لیے افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی نمائندے محمد عمر داودزائی کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان خطے میں امن اور استحکام کے لیے سیاسی تعاون کو بہتر بنا رہے ہیں۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے دورہ افغانستان سے قبل عمر داؤدزئی نے افغانستان کے قومی ٹیلی ویژن سے گفتگو میں پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے بارے میں پالیسی تبدیلی ہو رہی ہے۔ پاکستان کی پالیسی اب جیو پولیٹکس سے جیو اکنامک میں بدل گئی ہے اور اس کے لیے افغانستان میں امن ہونا ضروری ہے۔
عمر داؤد زئی نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات میں افغانستان کی مدد کی ہے پاکستان چاہتا ہے کہ وسطی ایشیا ریاستوں کے ساتھ تجارت کو آگے بڑھانے اور علاقائی خوشحالی میں کردار ادا کرنے کے لیے افغانستان میں امن قائم ہو۔ پاکستان تمام افغان سٹیک ہولڈرز کو امن مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
عمر داؤد زئی نے استنبول کانفرسس میں طالبان کو شامل کرنے کے حوالے سے پاکستان کے متعلق کہا کہ مجھے یقین کے ساتھ علم ہے کہ پاکستان نے طالبان پر استنبول کانفرس میں شرکت کے لیے بہت دباؤ بڑھایا۔
عمر داؤد زئی نے سکیورٹی تعاون کے حوالے سے کہا کہ پاکستان نے مجھے پہلی بار کہا کہ وہ افغان آرمی کے تعاون سے راضی اور مطمئن ہیں۔