یورپی یونین اپنے منگل کو ہونے والے اجلاس میں اسرائیل اور فسطینی گروپ حماس کے درمیان جنگ بندی کا مطالبہ کرنے جا رہی ہے۔
یہ مطالبہ ایک ہنگامی ویڈیو اجلاس کے دوران کیا جائے گا لیکن سفارت کاروں کے مطابق یورپی یونین میں موجود تقسیم اس حوالے سے اس کے کردار کو محدود کر سکتی ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے ساتھ سوموار کو ہونے والی گفتگو میں جنگ بندی کی حمایت کا اظہار کیا ہے جبکہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے یورپی اتحاد کے 27 ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس آج دوپہر کے لیے طلب کر رکھا ہے۔
جوزف بوریل کے ترجمان پیٹر سانتو کا غزہ اور اسرائیل کے درمیان موجود تنازعے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے دوستوں سے رابطہ کیا ہے تاکہ دیکھ جا سکے کہ ہم اس خطرناک صورت حال اور تشدد کو روکنے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
یاد رہے یورپی یونین اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی پارٹنر ہے جب کہ فلسطین کو بڑے پیمانے پر امداد بھی فراہم کرتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں یورپی یونین اسرائیل پر معاشی پابندیوں کے حوالے سے گفتگو کرنے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
مشرق وسطی میں امن عمل کے حوالے سے یورپی یونین امریکہ کے کلیدی کردار کی قائل ہے اور اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ کم کر چکی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے جاری بیان کی تیاریوں میں اندرونی تقسیم حائل ہے جبکہ منگل کے اجلاس میں کسی نئی پالیسی کے سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔
سفارت کاروں کے مطابق اس حوالے سے ویڈیو اجلاس کے انعقاد میں بھی سست روی دیکھنے میں آئی ہے جب کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے مغربی دنیا کا رد عمل سامنے نہ آنے پر سخت تنقید کی ہے۔
یورپی یونین کے آٹھ چھوٹے ممالک جن میں لکسمبرگ، بیلجئیم، آئرلینڈ، مالٹا اور فن لینڈ شامل ہیں، فلسطینی حقوق کے حوالے سے بڑھ چڑھ کر آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کے حصول کے لیے یورپی یونین کے مزید کردار ادا کرنا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیلجئین گرین کے قانون ساز سیمون موتکوئن نے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’بم دھماکوں کے آوازوں کے درمیان یورپ خاموش ہے۔‘ جب کہ کئی اور قانون سازوں نے اسرائیل پر پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔
یورپی یونین کے دیگر ممالک جن میں ہنگری، چیک ری پبلک، آسٹریا، یونان، قبرص اور پولینڈ شامل ہیں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ جمعے کو آسٹریا کے شہر ویانا میں وفاقی چانسلر کی عمارت پر اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیلی پرچم بھی لہرایا گیا۔
جب کہ یورپ کا سب سے طاقتور ملک جرمنی جو ابھی تک نازی جرائم کے لیے خود کو مورد الزام سمجھتا ہے اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کے حوالے سے گفتگو تک کرنے پر تذبذب کا شکار ہے۔
فرانسیسی صدر ایمونوئیل میکروں کا سوموار کو کہنا تھا کہ وہ مصری صدر اور اردن کے بادشاہ کے ساتھ مل کر جنگ بندی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کی جا سکے۔